ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے


کابل کے امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کی صدارتی حلف برداری کی تقریب کا ایک فائدہ تو ہوا... کہ اس تقریب کی وجہ سے محسن داوڑ اور علی وزیر، پی ٹی ایم کے مخلص کارکنوں کے سامنے بے نقاب ہوگئے … چنانچہ اب اگر غیور پختون نوجوان ان دونوں سے سخت ناراض ہوکر ان کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں... تو یہ ان کا جائز حق ہے … ناراض پختون نوجوانوں کے ایسے ہی ایک مظاہرے کا وڈیو کلپ ایک مہربان دوست نے مجھے بھی بجھوایا … اس وڈیو کلپ میں پشتین ''ٹوپی'' کو آگ لگاکر مخالفانہ نعرے لگاتے ہوئے پختون مظاہرین کو صاف دیکھا جاسکتاہے، اس خاکسار کا تو روز اول سے ہی موقف تھا کہ پختون عوام حب الوطنی اور اپنے اسلام پسندانہ مزاج پر کبھی کمپرومائز نہیں کریںگے۔*
*کوئی لیڈر بھی اپنے ساتھ چلنے والوں کو زیادہ دیر تک دھوکا نہیں دے سکتا… محسن داوڑ اور علی وزیر تو پھر اس پختون قوم کی لیڈری کا دعویٰ کرتے ہیں ...کہ جس پختون قوم نے اس ملک کے دفاع کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں، پھر کیسے ممکن تھا کہ جی ایچ کیو، لاہور، اسلام آباد کی تباہی کی باتیں کرنے والوں کی ...اصلیت زیادہ دیر تک پختونوں سے چھپی رہ سکتی؟*
*بھلا مادر پدر آزاد اور الف ننگے کلچر والے عورت مارچ کاغیرت مندپختونوں سے کیا تعلق؟ صوابی کے دوست فیاض خان نے چند دن قبل... مجھ سے بڑے دکھی لہجے میں کہا تھا کہ ''داوڑ, وزیر و گلالئی اسماعیل ، پتہ نہیں یہ ہمارے کن ''پاپوں'' کی سزا بن کر مسلط ہوئے? وگرنہ اداروں کے خلاف کمپیئن، عورتوں کی بے پردگی اور عورت مارچز کا پختون قوم سے کیا واسطہ؟ جو سوالات اس خاکسار نے اپنے کالموں کے ذریعے اٹھائے تھے … خوشی کا مقام یہ ہے کہ اب پی ٹی ایم کے باہمت اور غیور نوجوان بھی پوری شدت سے اٹھا رہے ہیں … سوال تو بنتا ہے ہ آخر محسن داوڑ اور علی وزیر نے افغانستان کی آزادی یا وہاں کی معیشت کو سنبھالنے میں کون سا ایسا خاص کارنامہ سرانجام دے رکھا تھا… کہ اشرف غنی کی تقریب حلف وفاداری میں انہیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا؟ صرف یہی نہیں بلکہ پاک افغان بارڈر سے انہیں نیشنل آرمی کے خصوصی ہیلی کاپٹر میں کابل لے جانا اور ان کے وہاں پہنچنے تک حلف برداری کی تقریب کا ملتوی رہنا، آخر ان میں ایسے کون سے سرخاب کے پر تھے… کہ جو عالمی صیہونی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ان پر صدقے واری ہو رہے تھے؟* *فرحت اللہ بابر، اچکزئی، بشری گوہر، افراسیاب خٹک یہ تو پرانے خدمت گار ہیں … ان کے راستے میں اگر پھول بچھائے جائیں یا انہیں ملنے والا پروٹوکول بھی کسی حد تک قابل فہم ہے... مگر محسن داوڑ اور علی وزیر نے ان سے بڑھ کر کیا ''خدمت'' کی? کہ ان کو ملنے والے غیر معمولی پروٹول کو دیکھ کر... ان بے چاروں کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں؟*
*روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان جو چینل زدہ نہیں، بلکہ حقیقی دانشور ہیں … ان کی کہی ہوئی یہ بات کہ مخلص کارکن کے سامنے تو لیڈر ہوتاہے … لیکن لیڈر کے پیچھے کون کون ہوتاہے؟ یہ تو کارکن نہیں جانتے، یہاں بھی صاد ق آرہی ہے ، کیا اب یہ بھی کوئی راز کی بات ہے... کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے پیچھے کون سی طاقتیں کارفرماہیں؟*
*پی ٹی ایم کے مخلص اور جذباتی کارکن اگر سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کررہے ہیں... تو یہ ایک صحت مندانہ رجحان ہے، پختونوں کے جینوئن ایشوز کو بنیاد بناکر پوری قوم کے نظریات کو ''را'' یا این ڈی ایس کے قدموں پر ڈھیر کرنے والوں کی گوشمالی کرنا ...مخلص اور محب وطن کارکنوں کی اولین ذمہ داری ہے۔*
*شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے دونوں ایم این ایز کے خلاف مظاہرے میں پشتین مارکہ ''ٹوپیاں'' جلانے والے پختون نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ ٹوپیاں نذر آتش کرنے کی بجائے ایسے لیڈروں کا سختی سے محاسبہ کریں... کہ جو پختون قوم کے حب الوطنی اور اسلام پسندانہ مزاج کو کبھی عورت مارچز اور کبھی این ڈی ایس کے چرنوں پر قربان کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔*
*''اشرف غنی' ' کی اصل حقیقت کو ہر ذی شعور انسان جانتا ہے … اور وہ یہ کہ موصوف کی افغان عوام میں سرے سے کوئی حیثیت ہے ہی نہیں، موصوف کی صدارت کاجھنڈا کابل کے صدارتی محل تک ہی محدود ہے، امریکی ''کٹھ پتلی'' ہونا ان کی اصل پہچان اور شناخت ہے … نہ اشرف غنی نے پختون قوم کے لئے کبھی کوئی کارنامہ سرانجام دیا … اور نہ ہی پختونوں نے کبھی انہیں اپنا نمائندہ قرار دیا … ایک خالص امریکی کٹھ پتلی کے ساتھ کابل جاکر دوسری اور تیسری صف میں کھڑا ہوکر تصویریں کھینچوا کر خوش ہونے والوں کی... اپنی حیثیت کیا ہوگی؟ یہ کوئی الجبراء کا ایسا سوال نہیں ہے کہ جس کا جواب حاصل کرنے کیلئے پختون نوجوانوں کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے، جواب ،دو، جمع دو برابر ہے، چار کی طرح بڑا واضح اور شفاف ہے... کہ اشرف غنی ہو، محسن داوڑ ہو، افراسیاب ہو یا علی وزیر، یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں … جو کابل میں صدارتی تقریب سے محروم رہے، حسین حقانی، مبشر زیدی، گل بخاری، ماروی سرمد، گلالئی اسماعیل وغیرہ وغیرہ یہ سب بھی اسی ''تھیلی'' کا ہی حصہ ہیں، جب یہ سارے مل کر پاک وطن، پاک فوج، نظریہ پاکستان، دین اسلام کے مبارک احکامات پر تبراء کرتے ہوئے نہیں شرماتے … تو پھر ہم اپنے ملک، فوج، پختون قوم، نظریہ پاکستان اور اسلامی احکامات  کی حمایت میں لکھتے ہوئے کیوں گھبرائیں؟*
*ادھر آ پیارے ہنر آزمائیں*
*تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں*

اور امریکہ جنگ جیت گیا


روس دنیا کا سرد ترین ملک مگر وہاں کرونا وائرس نہیں۔
ترکی بھی سرد ملک ہے اور ایران کا پڑوسی مگر وہاں کرونا نہیں۔
افغانستان ایران کا پڑوسی مگر وہاں کرونا نہیں۔
دبئی ایران کا قریبی ملک مگر وہاں کرونا نہیں۔
عرب کے دیگر ممالک میں کرونا وائرس سے کسی کے مرنے کی خبر نہیں۔
یہ کرونا وائرس امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ کو چھوڑ کر آخر یورپی یونین اور اس کے ممالک چین،اٹلی،اسپین اور ایران و پاکستان میں کیسے پہنچ آیا۔؟

ان ممالک میں کرونا وائرس کیوں آیا اس کے پیچھے جو سازش اور خفیہ منصوبہ ہے وہ آپ کی آنکھوں کو حیرت سے کھول دے گا۔
چین اس وقت دنیا کا معاشی ریچھ بنتا جا رہا تھا اور امریکہ نے متعدد بار چین کو روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔
امریکہ اس پوزیشن میں بھی نہیں تھا کہ وہ چین سے جنگ کر سکے لہذا اس نے افغانستان سے نکلتے ہی دنیا کی توجہ کرونا وائرس کی طرف کرا دی۔
طالبان سے امن معائدہ ہونے کی دیر تھی کہ چین میں کرونا وائرس کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔
چین کو معاشی سپر پاور بننے سے روکنا تھا اور اس کام کے لیے امریکہ اکیلا کافی نہیں تھا۔
امریکہ نے چین کی معیشت کو کنگال کرنے کے لیے اپنے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل کو ساتھ ملا لیا۔طے شدہ پلان کے مطابق کرونا وائرس کو چین کے شہر "ووہان" میں دو ماہ قبل ملٹری مشقوں کے دوران چھوڑا گیا۔امریکی فوج کے واپس جاتے ہی ووہان شہر میں کرونا وائرس کی وبا نے سر اٹھا لیا۔
شروع میں چینی حکام کو اس بات کی سمجھ نہ آئی کہ وائرس آخر پھیلا کہاں سے۔
وائرس سے متعلق چین نے خبروں کو روکنے کی کوشش کی مگر بات اس وقت تک اس کی پہنچ سے بہت دور نکل چکی تھی اور یہ معاملہ امریکہ کے زیر اثر میڈیا نے دنیا بھر میں اچھال دیا۔
امریکہ کا پہلا نشانہ کامیاب ہوا اور وائرس نے چین اور چینیوں کو دنیا بھر میں مشکوک اور اچھوت بنا ڈالا۔
وائرس چین سے نکل کر اٹلی،اسپین،فرانس،جرمنی،
ایران تک جا پہنچا۔جب ان ممالک میں ہلاکتوں کی خبریں آنا شروع ہوئی تو امریکہ نے آئی ایم ایف،ورلڈ بنک،عالمی ادارہ صحت کے سربراہان کو خفیہ پیغامات کے ذریعے ان ممالک کو امداد دینے کے اعلانات کرنے کا کہا۔
برطانیہ نے بھی امداد کا اعلان کر دیا اور امداد کا اعلان سنتے ہی وہ ممالک بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے جہاں ایک بھی کیس رجسٹرڈ نہ ہوا۔
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلتے ہی امریکہ نے اس کیطرف ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ مل کر دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔برطانیہ سے تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے یورپی یونین کے افراد پر بھی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جبکہ برطانیہ سے کہا کہ اس کے شہری امریکہ آسکتے ہیں۔
2019 کے آخر تک اعداد و شمار کے مطابق چین دنیا کے 124 ممالک کے ساتھ تجارتی طور پر منسلک ہو چکا تھا اور اس کی بنائی ہوئی چیزیں ان 124 ممالک تک پہنچ رہی تھیں جبکہ 2019 کے آخر میں امریکہ کا تجارتی رابطہ صرف 56 ممالک تک محدود تھا۔
امریکہ بلیک فرائیڈے اور سائبر منڈے کے نام پر شاپنگ کی مد میں ایک دن میں 5.8 بلین ڈالر کما رہا تھا جبکہ چین صرف ایک دن میں 14.3 بلین ڈالرز مالیت کی اشیا فروخت کردیتا تھا اور چین کی یہی ترقی امریکہ کے پیٹ میں مسلسل مروڑ پیدا کر رہی تھی۔
چین کی راہ روکنے کے یے امریکہ،برطانیہ اور اسرائیل دنیا کا معاشی سپر پاور بننے کا منصوبہ شروع کرچکے ہیں اور اس منصوبے کے مطابق پہلے انہوں نے چین کو نشانہ بنایا اور پھر ان ممالک کو ٹارگٹ کیا جن کے چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی تعلقات تھے۔یورپ کے بڑے ممالک میں چینی مصنوعات نے اپنا اڈہ قائم کر لیا تھا۔نہ صرف یورپ بلکہ مڈل ایسٹ،عرب ممالک اور پاکستان تک چین نے تجارتی رسائی حاصل کر لی تھی۔
یہ ساری صورتحال امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں تھی کہ چین معیشت میں اس سے آگے نکلے۔
اب حالات یہ ہیں کہ امریکہ نے ساری دنیا کو امداد کا لالچ دے کر وائرس زدہ بنا ڈالا اور خود آج دعائیہ تقریبات کا دن منانے کا اعلان کر دیا۔
امریکہ نے چین کو ننگا کرنے کے لیے میڈیا کا سہارا لیا اور دنیا کو بتایا کہ چین سے کچھ بھی نہیں لینا ورنہ وائرس سے مر جاو گے۔
اب دنیا کا ہر ملک ہر شہری چین سے ایک پیسے کی بھی چیز لینے کا نہیں سوچ رہا بھلے وہ مفت ہی کیوں نے ملے۔
ایران چونکہ پہلے سے ہی امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر تھا تو اس کو مزید کمزور کرنے کے لیے اس وائرس کا سہارا لیا گیا۔
اب آگے پاکستان بچتا تھا جہاں چین کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری چل رہی ہے۔حکومت نے آو دیکھا نہ تاؤ اور پورے پاکستان کو بند کر دیا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا تمام تر دار و مدار چینی مصنوعات پر تھا اور وہ آنا بند ہو گئیں اور جو کاروبار چین کی مصنوعات پر چل رہا تھا وہ ٹھپ ہو کر دہ گیا۔
وائرس کی افواہوں نے نہ صرف چین کو متاثر کیا بلکہ پاکستان میں سی پیک پر کام کرنے والے افراد،انجینئرز اور کمپنیاں چینیوں سے بھاگنے لگیں۔
دنیا کو سوئی سے لے کر ایٹم بم دینے والے چین کی حالت اب ایسی ہے ہو گئی ہے کہ وہ دنیا سے ماسک بھیجنے کی درخواست کر رہا ہے اور یہی امریکہ چاہتا تھا کہ چین ایسی حالت میں آجائے کہ وہ آگے نہ نکل سکے۔
امریکہ نے عراق،افغان اور شام کی جنگ میں کھربوں ڈالر ضائع کیئے ہیں اور کہیں بھی کامیابی نہیں ہو پائی۔لگاتار جنگوں کے بعد امریکی اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اب ایسی جنگ لڑی جائے جس میں ایک بھی امریکی فوجی نہ مرے اور دنیا پر ہم راج بھی کریں۔
آج امریکہ افغانستان سے بھی نکل چکا،عراق میں بھی چند سو فوجی ہیں اور شام میں چند درجن۔
سالوں سے لڑی جانے والی ان جنگوں کا نقصان امریکہ کو کسی طرح پورا کرنا تھا اور یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسے تجارت کا سہارا لینا تھا لیکن چین اس کے آگے پہاڑ کی طرح کھڑا تھا اور یہاں پر چین سے جنگ اسلحے سے نہیں بلکہ دماغ سے لڑنی تھی اور بالآخر
امریکہ،چین سے لڑے بغیر ہی اپنی جنگ جیت گیا اور اس نےمحض ایک مہینے میں ہی چین جیسے معاشی ریچھ کو پاوں کے بل بٹھا دیا۔
اب منصوبے کے مطابق آنے والے دنوں میں امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ دنیا میں اپنی مصنوعات کو بیچیں گے اور چین جب تک اپنے پاوں پر کھڑا ہوتا تب تک وہ ان سب کے نیچے لگ چکا ہو گا۔

امریکہ نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ چین کا معاشی گھیراو کیا اور اس سلسلے میں اس نے سعودی عرب،قطر،کویت جیسے ممالک کو بھی استعمال کرتے ہوئے ڈرایا کہ کسی کو اپنی طرف نہ آنے دو ورنہ مارے جاو گے اور حال یہ ہے کہ خانہ کعبہ شریف تک بند کر دیا گیا۔
یہ وائرس شاید اتنا خطرناک نہ ہو مگر اس وائرس کی آڑ میں چین کے خلاف جو پروپیگنڈہ کر کے چین کو گندہ کیا گیا وہ وائرس سے بھی زیادہ خطرناک ترین ثابت ہوا ہے۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے کہ کسی گاوں میں اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو پورے گاوں سے خبر نکل کر دس دیہاتوں تک پہنچ جاتی اور نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ عورت نہ گھر کہ رہتی اور نہ گھاٹ کی۔
یہی حال امریکہ نے چین کے ساتھ کیا ہے اب چین کی موجودہ حالت بالکل اس عورت کی طرح ہے جس سے دنیا کا ہر ملک بھاگ رہا کہ یہ مجھے بدنام نہ کر دے۔حتی کہ چین کا قریبی دوست پاکستان بھی منہ چھپا کر ایک سائیڈ پر ہو گیا کہ بھائی دور رہو حالات نازک ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ اس مشکل وقت میں چین کہ مدد کرے اور ملک بھر میں وائرس کے نام پر جو افراتفری پھیلائی ہوئی اس کو نارمل لا کر مشکل وقت میں چین کی تجارت سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور چین کو حوصلہ بھی دے۔
کیونکہ چینی وہ قوم ہے جو ہر چیز کا توڑ نکال لیتی ہے اور آج نہ سہی کل تک وائرس کا حل نکال لے گی اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کو وہ پھر ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
اللہ پاک برے وقت سے بچائے کہ پاکستان میں اس وقت تک کرونا وائرس سے کسی ایک شخص کی موت تک نہیں ہوئی اور افراتفری اتنی پھیلا دی کہ چین والے خود حیران ہیں۔
تھر میں بچے بھوکے مرتے رہے پر وزیراعلی نے ایسی پھرتی کبھی نہیں دکھائی۔صرف لاڑکانہ میں سڑکوں کے نام پر 80 ارب ڈکارنے والی پیپلز پارٹی اسکول کالج بند کرا کے وزیراعلی سندھ کو اکیس توپوں کی سلامیاں دے رہی ہے اور ہم خوش ہو رہے کہ واہ کرونا کے خلاف بس،ایک ہی وزیراعلی کام کر رہا۔
50 ارب ڈالر کی امداد کا سن کر ہمارے منہ میں بھی پانی آگیا ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ یہ امداد دراصل اس امریکی اور اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے جو چین کو دیوار سے لگانے کے لیے بنایا گیا اور ہم اتنے سادے کہ کہا چلو 50 ارب تو آرہے۔
کوئی امریکہ،برطانیہ اور آئی ایم ایف سے پوچھے کہ امداد کا حقدار تو چین ہے اس کو کیوں نہیں دے رہے۔۔۔؟
آپ دنیا کو دکھانے کے لیے بندر کی طرح بھلے ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگیں لگائیں مگر
ہمیں امریکہ کی امداد اور اپنے دوست چین کے درمیان تعلقات میں فرق ضرور رکھنا ہو )

مولانا حنیف جالندھری کا کروناکش خطاب

کرونا‘ کرونا‘ کرونا چینلز کے رپورٹرز‘ نیوز کاسٹرز اور اینکرز کی پھرتیاں دیکھ دیکھ کر پوری قوم نفسیاتی مریض بنتی جارہی ہے... ان حالات میں مزید ضروری ہوگیا ہے کہ علماء اور اہل اللہ سے رابطوں کو بڑھایا جائے... شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے بالکل درست فرمایا کہ ’’وبائیں آتی جاتی رہتی ہیں ان کی وجہ سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ استغفار‘ دعائوں اور مناسب احتیاطی تدبیروں کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘*
*یہ خاکسار تو انہیں صفحات پر  چند دن قبل اپنے کالم میں کرونا وائرس کی ایسی تیسی پھیر چکا تھا... مگر ہفتہ کی رات جامعہ حسان بن ثابتؓ کے مہتمم مولانا عبدالقادر کی دعوت پر ان کے مدرسے کے ساتویں سالانہ تکمیل حفظ قرآن کریم کی تقریب میں اپنے دوست ادریس اسلم کی ہمراہی میں کراچی کے علاقے اختر کالونی پہنچا... تو کرونا کی ساری دہشت و وحشت دماغ سے چھٹ چکی تھی۔ مسجد کا وسیع و عریض خوبصورت ہال علماء‘ طلباء اور اختر کالونی کے غیور مسلمان عوام سے کچھا‘ کھچ بھرا ہوا تھا... میں نے مسجد کے ہال میں بیٹھے ہوئے معصوم طلباء‘ عوام اور علماء کے چہروں  پر ’’کرونا‘‘ کا خوف ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی‘ لیکن وہاں قرآن کی محبت اور نورانیت کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔*
*ادریس اسلم کہ جس کو دولہا بنے ابھی ہفتہ‘  عشرہ بھی نہیں ہوا... میں نے اسے بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’میاں‘‘ اتنے بڑے اجتماع میں مت بیٹھو‘ کسی سے ہاتھ مت ملائو‘ فوراً گھر چلے جائو کہیں کرونا وائرس ہی نہ آجائے؟ مگر نوجوان دوست کا کہنا تھا کہ حضرت‘ میں الحمدللہ ٹی وی چینلز دیکھتا ہی نہیں‘ اور جامعہ حسان بن ثابتؓ کے جن 28معصوم طلباء نے قرآن پاک حفظ کیا ہے‘ مجھے یقین ہے  قرآن پاک کی برکت سے کرونا وائرس نہیں... بلکہ پروردگار کی رحمتوں کا نزول ہوگا‘ جامعہ صدیقیہ کے مہتمم اور استاذ الحدیث مولانا شفیق الرحمن کا عظمت قرآن کے موضوع پر انتہائی پرمغز خطاب جاری تھا اور ماشاء اللہ‘ عوام صرف ’’کرونا‘‘ ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے وائرس کو بھول بھال کر ان کی زبان سے قرآن پاک کے پانچ حقوق کا تذکرہ سن رہے تھے۔*
*سکول بند‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند‘  سینما اور پارکس بند‘ شادی ہال بند‘ وفاق المدارس سمیت تمام مسالک کے دینی مدارس بند‘ 23مارچ کو یوم پاکستان کی تمام تقریبات منسوخ‘ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدیں دو ہفتوں کے لئے بند‘ لندن کے شاپنگ مال خالی‘ کرونا کے خوف میں مبتلا عالمی لیڈر ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرنے لگے ... یہ ساری خبریں اپنی جگہ درست‘ لیکن جامعہ حسان بن ثابتؓ کی تکمیل قرآن کی پروقار تقریب نے کچھ وقت کے لئے یہ سب کچھ بھلا ڈالا۔*
*وفاق المدارس کے قائد شیخ الحدیث مولانا حنیف جالندھری  جو دارالعلوم کراچی میں منعقدہ وفاق کے اکابرین کے اجلاس سے سیدھے سٹیج پر پہنچے تھے... انہوں نے اپنے خطاب میں جب وبائوں اور بیماریوں کو قرآن و حدیث کی روشنی اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے طرز عمل سے... خوب کھول کھول کر بیان کیاتو سچی بات ہے کہ مولانا حنیف جالندھری کا معرکتہ الاآراء خطاب سن کر... مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ کرونا وائرس بھی واقعی کوئی وباء ہے... اور اس سے بچنے کے لئے صرف سیکولر‘ یا حکمرانوں کو ہی نہیں... بلکہ مذہب پسندوں کو بھی پوری کوشش کرنی چاہیے۔*
*مولانا جالندھری نے عوام سے اپیل کی کہ کرونا وائرس سے بچائو کے لئے حکومت نے جو احتیاطی تدابیر بتائی ہیں... اس پر ہر پاکستانی کو عمل کرنا چاہیے‘ ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی بنیاد پر مساجد کی باجماعت نمازوں سے روکنا‘ یا مساجد کو ویران کرنے کی کوششوں کی تائید نہیں کی جاسکتی‘ اس حوالے سے انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتؐ کے سابق  امیر نامور شیخ الحدیث حضرت اقدس عبدالمجید لدھیانوی نوراللہ مرقدہ کا واقعہ بھی سنایا... وہ یہ کہ مولانا عبدالمجید کو دل کی تکلیف ہوئی... انہوں نے کراچی میں کسی بڑے ہارٹ سپیشلسٹ کو اپنا چیک اپ کروایا‘ اس کے کہنے پر مختلف ٹیسٹ حتیٰ کہ انجیوگرافی تک کروائی‘ مختلف ٹیسٹوں کی رپورٹیں دیکھنے کے بعد ماہر ڈاکٹر نے کہا کہ ’’مولانا‘‘ اب آپ کو موت کسی وقت بھی آسکتی ہے... شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی نوراللہ مرقدہ نے مسکرا کر ڈاکٹر سے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب... آپ نے خوامخواہ میرا وقت برباد کردیا‘ پیسے الگ سے ضائع ہوگئے۔ یہ بات تو میں بچپن سے جانتا ہوں کہ میرے سمیت ہر انسان کو کسی بھی وقت  موت آسکتی ہے‘ یہ واقعہ سن کر تقریب کے شرکاء کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئیں۔*
*وفاق المدارس کے قائد نے مسکراتے  لوگوں سے کہا کہ ہر مسلمان کا ایمان ہے... کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے‘ جو رات قبر کی ہے وہ باہر نہیں آئے گی... اور جو رات باہر کی ہے وہ قبر میں نہیں آسکتی‘ اس لئے ہم مسلمانوں نے کرونا وائرس سے نہ تو خوفزدہ ہونا ہے اور نہ گھبرانا ہے‘ بلکہ دین پہ ثابت قدم رہتے ہوئے‘ تلاوت قرآن‘ عبادات‘ استغفار اور دعا و مناجات کے ذریعے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کو راضی کرنا ہے‘ حکومت کی بتائی احتیاطی تدابیر کو بھی لازمی اختیار کرنا ہے... مولانا کا خطاب اتنا جامع معنی‘ پرمغز اور مدلل تھا کہ شرکاء کی خواہش تھی کہ  ساری رات یعنی اذان فجر تک جاری رہے... کئی لوگوں نے اس خواہش کا برملا اظہار بھی کیا۔ یہ تو مولانا جالندھری لمبے سفر اور کئی گھنٹے کے اجلاس کے تھکے ماندے تھے... جو خیر رہی  اور عوام کی چاہت اور درخواست کے باوجود انہوں نے اپنا خطاب ختم کر دیا... بعد میں وفاق المدارس سندھ کے ترجمان مولانا طلحہ رحمانی‘ مولانا احمد جالندھری‘ مولانا شفیق الرحمن کشمیری‘ مولانا ابراہیم سکھر گاہی‘ مولانا عبدالقادر سمیت متعدد علماء کی موجودگی میں مولانا حنیف جالندھری نے روزنامہ اوصاف کی اسلام پسند پالیسی‘ بہترین نظریاتی اداریوں اور اس خاکسار کے کالموں کے حوالے سے خوب حوصلہ افزاء گفتگو فرمائی‘ وہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور فحاشی پر بھی کافی دل گرفتہ  تھے...  . اس خاکسار سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وفاق المدارس کے اکابرین نے حکومتی فیصلے کے احترام میں مدارس دینیہ کے عزیز طلباء میں 5اپریل تک  تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے۔*
*ہم نے اپنے طلباء کو ہدایت دی ہے کہ... وہ یہ  چند ہفتے اپنے گھروں میں والدین کی خدمت اور قرآن مقدس کی تلاوت کرتے ہوئے گزاریں‘ قائد وفاق المدارس کا کہنا تھا کہ ہمین دینی مدارس کے طلباء پر فخر اور ناز ہے... پہلے وہ دینی مدارس کی چہار دیواری کے اندر قرآن و حدیث و دیگر اسلامی علوم... حاصل کرتے تھے۔*
*کرونا وائرس کی خطرناک وباء کی وجہ سے ہونے والی ہنگامی چھٹیوں میں بھی ان شاء اللہ قرآن و حدیث کے... علم کو دوہرانے کا وہی سلسلہ اب وہ اپنے گھروں میں بھی جاری* *رکھیں گے۔ (انشاء اللہ)*

عورت مارچ والوں کے مسائل اور تصادم کے خطرات


قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے پیمرا کو فوری طور پر پورے میڈیا پر ''میرا جسم، میری مرضی'' کے الفاظ نشر کرنے پر پابندی عائد کرنے کی ہدایت کر دی ہے، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جاوید لطیف نے کہا کہ خواتین مارچ والا مسئلہ بہت بڑا ہے، بے حیائی سے قومیں ختم ہو جاتی ہیں... خواتین مارچ اور بیہودہ نعروں کو میڈیا پر چلانا کسی طور پر درست نہیں۔''
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کاکہناہے کہ ''میرا جسم میری مرضی'' کی بات کرنا فحاشی اور لادینیت ہے … پاکستان کی مشرقی تہذیب کو مغربی تہذیب میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، انہوں نے عورت مارچ کے حوالے سے کہا کہ یہ مارچ کس لئے ہے؟ ہمارے دین میں عورت کو باعزت مقام دیا گیا ہے، ہم کیوں دوبارہ زمانہ جاہلیت کی طرف جانا چاہتے ہیں? مولانا نے کہا کہ ایک فیصد لوگ جو معاشرے کاحصہ نہیں ہیں ، بے نقاب ہو رہے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کے نام ایک خط بھی لکھا گیا ہے… جس میں8 مارچ کے دن دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی وغیرہ میں ہونے والے عورت مارچ کے دوران کسی تصادم اور… ناخوشگوار واقعے کی نشاندہی کرکے اس کے سدباب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، طالبات کی مشہور اسلامی درسگاہ جامعہ حفصہ کی پرنسپل ام حسان، جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کی بیٹی محترمہ سمیعہ راحیل قاضی بھی 8 مارچ کے دن ہزاروں خواتین پر مشتمل حیاء مارچ کا اعلان کرچکی ہیں… دوسری طرف زرداری پارٹی کے چیئرمین مسٹر بلاول زرداری نے بھی کہہ دیا ہے کہ عورت مارچ کوئی نہیں روک سکتا، کوئی سیاست دان، مولانا اور ٹی وی پر بیٹھا ہوا اینکر ، عورت مارچ کاراستہ نہیں روسکتا، ان حالات میں جب پاکستان کا سب سے بڑا دشمن نریندر مودی بار بار کبھی آزاد کشمیر اور کبھی پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دے رہاہے … مغربی تہذیب ، عالمی بینک کے راتب خوروں اور دھرتی ماں کے فرزندوں کے… درمیان اک تصادم کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔
اس نازک موقع پر حکومت کو خاموشی سے تماشا دیکھنے کی بجائے… عورت مارچ کی آنٹیوں، انکلز اور ان کے حامی اینکرز اور اینکرنیوں کو بلاکر ان کے مسائل معلوم کرنے چاہئیں، عورت مارچ کرنے والیوں میں سے اگر کسی کی شادی کا مسئلہ، طلاق کا مسئلہ ہے، روزگار کا مسئلہ ہے یا ان کے پاس گھر نہیں ہے تو ان کی شادیوں کا بندوبست کرنے سے لے کر گھر اور روزگار مہیا کرنے تک حکومت کو کردار ادا کرناچاہیے … اگر عالمی بینک کی غلام بگڑی ہوئی بیگمات …چولہا نہیں جلانا چاہتں ، سالن گرم نہیں کرنا چاہتیں، الٹا، پلٹا بیٹھنا چاہتی ہیں... تو ان کے خاوندوں اور بھائیوں کو بلاکر سمجھایا جاسکتا ہے کہ وہ ان سے نہ سالن پکوائیں … نہ سالن گرم کروائیں اور نہ انہیں موزے ڈھونڈنے پر لگائیں، بلکہ وہ یہ سارے کا م خود کرلیا کریں، لیکن مغربی این جی اوز کی موم بتی مافیا کی ان آنٹیوں اور سیٹھائے ہوئے انکلز کو... سڑکوں پر نکل کر تعفن پھیلانے کی اجازت دینا معاشرے کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
ان مغرب زدہ آنٹیوں کی تعداد پاکستان میں ایک فیصد بھی نہیں بنتی اور انہیں دعویٰ ہے…99 فیصد عورتوں کی لیڈری کا? کراچی سے لے کر پشاور تک موم بتی مافیا …کے گمراہ ٹولے کو اگر حکومت نہیں روکنا چاہتی… تو میرا چیلنج ہے کہ صرف لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ محترمہ ام حسان کو اجازت دے دی جائے، وہ پاکستان بھر کی99 فیصد خواتین کو… اسلام آباد بلاکر ان آنٹیوں کا ایسا مکو ٹھپیں گی کہ پھر یہ زندگی بھر اپنے خاوندوں کے پائوں میں موزے پہنانا باعث ثواب سمجھا کریں گی، سوشل میڈیا پر ایک چینل کے حوالے سے بھی خوب احتجاج ہو رہا ہے ...کہ وہ مخصوص چینل عورت مارچ کے حوالے سے مکمل جانبداری برت رہا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ جس وقت بھارتی فوج کشمیریوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیل رہی تھی تو یہی مخصوص چینل تھا کہ جس نے ''امن کی آشا'' کے نام پر بھارتی پرچم چھاپ کر ہر پاکستانی کے گھر تک پہنچانے کی کوشش کی تھی، یہی وہ چینل ہے کہ جس نے چند سال قبل آئی ایس آئی کے چیف کے خلاف کمپیئن چلائی تھی… اس چینل اور چند مخصوص اینکرز اور اینکرنیوں کا انتہائی متعصبانہ انداز میں... مکمل جانبداری اختیار کرکے باقاعدہ عورت مارچ کے حوالے سے پارٹی بن جانا... اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب دجالی نظام اور عالمی صیہونی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
مجھ سے کوئی ناراض ہو یا راضی رہے... مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں، اگر عالمی بینک کے غلام، مغربی این جی اوز کے راتب خور... اسلامی تہذیب و تمدن اور ہمارے خاندانی سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے اکٹھے ہوچکے ہیں... تو پھر میرے سمیت ہر پاکستانی کا موم بتی مافیا کے ان خرکاروں کے راستے میں حائل ہونا وقت کی آواز ہے۔
اس مرتبہ8 مارچ کو اسلام آباد، کراچی، لاہور سمیت پاکستان کے کسی بھی شہر میں نکلنے والے کسی جلوس میں … اسلامی احکامات ، نظریہ پاکستان اور مشرقی تہذیب و تمدن کے خلاف نہ نعرے لگنے چاہئیں ، نہ کتبے اور بینر لہرانے کی اجازت ہونی چاہیے ... ایک فیصد بگڑی ہوئی بیگمات کو 99 فیصد خواتین کے حقو ق پر ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ 

اللہ اکبر، اللہ اکبر,اللہ اکبر


اگر کسی نے جہاد اور مجاہدین کی طاقت دیکھنی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ 29 فروری کے دن قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فاتح طالبان اور شکست خوردہ امریکہ کے درمیان ہونے والے اس تاریخی معاہدے ...کے موقع کے مناظر کو بار بار دیکھے ...کہ جب امریکی  وزیر خارجہ مائیک پومپیو سمیت دنیا کے50 ممالک کے نمائندوں کی... موجودگی میں ملا  محمد عمر کے طالبان اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔
شاباش، طالبان! تم نے جنگ کے بعد امن کے موقع پر بھی اللہ اکبر  کا نعرہ بلند کرکے ثابت کر دیا کہ اللہ کی طاقت سے... امریکہ اور اس کے غلام چالیس سے زائد ممالک کی افواج  کو عبرتناک شکست دے کر … تم ایک دفعہ پھر افغانستان میں اللہ کا سب سے پسندیدہ اسلامی نظام نافذ کرکے خونخوار اور بدتہذیب ''دنیا'' کو بتائو گے کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر ,بے شک اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔
میں آج کے کالم میں شکست خوردہ امریکہ اور فاتح طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شقوں کو... زیر بحث لانے کی بجائے افغان مجاہد طالبان کی اس19 سالہ طویل جدوجہد کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کروں گا ...کہ جس کے کامیاب نتائج کو دیکھ کر آج منافقین، ملحدین اور مشرکین کے سوا دنیا بھر  کے مسلمان خوشی محسوس کررہے ہیں۔
مجھے7 اکتوبر2001 ء کا وہ دن یاد ہے کہ... جب امریکہ اپنے غلام ممالک کے ہمراہ افغانستان پر پاگل ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑا تھا … تب طالبان کے امیر المومنین ملا محمد عمر نے وجد آفرین بیان جاری کیا …''جنگ امریکہ کی مرضی سے شروع ہوئی … لیکن ختم ہماری مرضی سے ہوگی'' اللہ اکبر، 29 فروری2020 ء کے دن ملا محمد عمر مجاہد کے اس دعوے کی سچائی کا سورج چمکتے ہوئے پورے عالم نے دیکھا۔
جب7 اکتوبر2001 ء کو امریکہ نے اپنے شیطانی اتحاد کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو ایسے لگا کہ جیسے پاکستان میں امریکی پٹاری  کا منہ کھل گیا ہو? امریکی ٹیکنالوجی اور خطرناک اسلحے کا غلغلہ بلند کرنے کے لئے… صرف قلم اور کالم ہی نہیں بلکہ ''زبانیں'' بھی گروی رکھ دی گئیں … بس پھر کیا تھا امریکی پٹاری کے دانش چوروں نے طالبان کو اجڈ، جاہل، گنوار، وحشی، عورتوں پر ظلم ڈھانے والے اور نہ جانے کیا کیا قرار دینا شروع کر دیا? ان قلم فروشوں کے کالم اور دانش فروشوں کے تجزیئے پڑھ کر ایسے لگتا تھا …کہ جیسے افغانستان پر حملہ آور امریکہ نے پاکستان میں پلے پلائے ، نویں نکور' بچے جنم دیئے ہوں۔
کاش کہ سائنس کی اس ''اولاد'' ٹیکنالوجی کےان ''فرزندوں''… امریکی پٹاری کے سیکولر اور لبرل گماشتوں کو کوئی اطلاع کر دے ...کہ افغانستان میں جہاد و قتال کی عبادت کو حرز جاں بنانے والے مجاہدین طالبان اور ان کا خدا جیت گیا… امریکہ اور اس کی ہمنوا  ساری شیطانی طاقتیں ہار گئیں... اور یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ افغان طالبان صبرواستقامت  کے ساتھ ساتھ ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق کے ساتھ جہادی راستوں پر گامزن رہے ، پتہ نہیں دبئی میں بیماری کے ایام گزارنے والے رسوا کن ڈکٹیٹر کو خبر ہوئی یا نہیں? کہ گھنی داڑھیوں اور بھاری پگڑیوں والے جیت گئے، 19 برس بعد امریکہ نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرکے یہ تسلیم کرلیا کہ یہ گھنی داڑھیوں اور بھاری پگڑیوں والے طالبان نہ عورتوں کے حقوق کے دشمن ہیں …نہ جاہل اور گنوار ہیں، نہ وحشی اور قاتل ہیں … امریکہ کا یہ اعتراف اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری19 برس تک طالبان کے حوالے سے  جھوٹا پروپیگنڈا کرتے رہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیں امریکی موقف اور ڈالروں کی برسات کے مقابلے میں… قلندرانہ شان رکھنے والے ملا محمد عمر کے طالبان کی قلمی حمایت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، یہ خاکسار اپنے کالموں اور روزنامہ اوصاف اپنے اداریوں کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں امریکی مظالم کا نشانہ بننے والے مظلوم مسلمانوں کے موقف کو اجاگر کرتے رہے۔
بے شک اللہ کے تمام وعدے برحق اور سچے ہیں … کافر، مشرک، پلید اور جھوٹے ہیں...جہاں اللہ نےقرآن میں دین حق کو غالب اور اپنے نور کی تکمیل کا وعدہ کر رکھا ہے... وہاں اس بات کا بھی  اعلان فرمایا ہے کہ ''اکثر چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
دوحہ میں امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد طالبان کے ''اللہ اکبر'' کے نعروں کو سن کر میرے دماغ میں ہلچل   برپا تھی … اور میں سوچ رہا تھا کہ کہاں گئے بی باون بمبار طیارے؟ کہاں گئے، ڈیزی کٹر بم اور ڈرون طیارے؟ وہ بموں کی ماں؟ وہ امریکی کمانڈوز، بلیک واٹر، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے خونخوار، وہ اڑتالیس ممالک کی تربیت یافتہ فوجیں، واہ خدا... بے شک قرآن پاک میں کیا گیاتیرا یہ وعدہ کہ '' تو مومنین کو فتح و نصرت عطا کرے گا''… ایک دفعہ پھر دنیا نے پورا ہوتے ہوئے دیکھا، امارت اسلامیہ کے موجودہ امیر المومنین شیخ الحدیث ملا ہیبت اللہ اخونزادہ یقینا اس وقت دنیا کی ایسی طاقتور ترین شخصیت بن چکے ہیں کہ جن کی طاقت دنیا  کی سپر پاور کہلانے والے امریکہ نے بھی تسلیم کرلی ہے... مگر ملا ہیبت اللہ کا بھی یہی اعلان ہے کہ اللہ اکبر … میری نگاہوں کے سامنے قندھار کے مرد قلندر کی وہ محفل گھوم رہی ہے کہ جس محفل میں شہید حق مفتی نظام الدین شامزئی، نور اللہ مرقدہ، مفتی محمد جمیل خان شہید، نامور شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ، ممتاز عالم دین حضرت قاری سعید الرحمن کے ہمراہ یہ خاکسار بھی موجود تھا اور ملا محمد عمر مجاہد ان اکابر علماء کے جھرمٹ میں عجزوانکسار کی تصویر بنے بیٹھے فرما رہے تھے... کہ طالبان اگر ایک انچ بھی زمین فتح کریں گے تو وہاں سب سے پہلے اسلامی نظام نافذ کریں گے۔
غالباً یہ1994 ء کا سال تھا, پھر اکتوبر 2001 ء تک دنیا اس بات پر شاہد ہے ...کہ طالبان نے افغانستان کا جو علاقہ بھی فتح کیا اس پر اسلامی نظام عملاً نافذکر دکھایا،28 فروری کو قطر کے دارلخلافہ دوحہ میں اس معاہدے کے بعد ملا عبدالغنی برادر نے تمام افغان گروپوں سے جو اپیل کی... وہ یہ تھی کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے  سارے اکٹھے ہو جائیں، یعنی مرحوم ملا محمد عمر سے لے کر دوحہ میں موجود ملا عبد الغنی برادر تک موقف اور بیانیہ ایک ہی ہے... کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے علاوہ کچھ بھی قبول نہیں ہے، اللہ اکبر، اللہ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، ملا  محمد عمر، مولوی جلال الدین حقانی، ملا بور جان، ملا ربانی سمیت افغانستان کے تمام شہداء کی قبور پر ، کہ جن کی بے مثال قربانیوں کی وجہ سے پہلے سپر پاور سوویت یونین اور اب سپر پاور امریکہ عبرتناک شکست سے دوچار ہوئیں، 

عمران خان کی سوچ انیس سال بعد سچ ثابت ہو گئی

وزیراعظم عمران خان کی سوچ نے عالمی طاقتوں کوبھی پیچھے چھوڑ دیا، آج امریکا طالبان معاہدے پر دستخط ہونے جارہے ہیں، جو عمران خان کے درست بیانیے کامنہ بولتا ثبوت ہے کہ امن جنگوں سے نہیں بات چیت سےآتاہے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کے 19 سال پہلے دیئے گئے
بیانیے کو دنیا نے آج تسلیم کرلیا کہ امن جنگوں سے نہیں بات چیت سے آتا ہے اور امریکا اور طالبان کےدرمیان افغان امن معاہدہ اس درست بیانیے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ماضی میں عمران خان نے جب بھی طالبان سےمذاکرات پر زور دیا تو ان کے مخالفین نے انہیں طالبان خان کہا جبکہ بہت سے لوگوں نے ان پر فتوے تک لگا دیئے۔ وفاقی وزیر اسدعمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا پہلے دن سے عمران خان نے افغانستان میں جنگ کی مخالفت کی، مذاکرات سے امن قائم ہونے کا کہا تو ان کو طالبان خان بولاگیا، 18 سال کی جنگ کے بعد امریکا طالبان سے معاہدہ کرنے جارہا ہے، خون بہانے کے بجائے پہلے دن یہ راستہ اختیار کیا ہوتا، دیر آید درست آید۔ وفاقی وزیرمواصلات مرادسعیدنے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہ اللہ الحق ہے ، نائن الیون کے بعد دنیا جنگ کے خمار میں مبتلا تھی ، ایک لیڈر تھا جس نےامن کی بات کی مذاکرات پر زور دیا تھا، کسی نے طالبان خان کہا تو کسی نے انتہا پسندی کا فتوی لگایا، 19 سال جنگ اورلاکھوں اموات کے بعد آج عمران خان کا مؤقف ماننا پڑا۔ خیال رہے امریکااورافغان طالبان کےدرمیان معاہدےپردستخط آج قطرمیں ہوں گے ، افغان امن معاہدہ پر دستخط کی تقریب کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں، معاہدے کی تقریب میں 50 ممالک کے وزیرخارجہ شرکت کریں گے ، پاکستان سےوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نمائندگی کررہےہیں۔ امریکا، طالبان امن معاہدے کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیاجائےگا اور تقریب کےبعدمعاہدےکی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا۔

کرونا وائرس ہی وائرس


جس ملک میں مفت مشورہ دینے والے عاملوں، نیم حکیموں، ڈاکٹروں، سنیاسی بابوں کی بھرمار ہو … اس ملک میں اگر ''کرونا وائرس'' آہی گیا تو کم بخت بچ کے کہاں جائے گا؟ کرونا وائرس کا ایک احسان نہ ماننا محسن کشی کے مترادف ہوگا اور وہ یہ کہ اس کی آمد کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر کے میڈیکل سٹورز کے مالکان کی ''مسلمانیت'' کھل کر سامنے آگئی … کراچی میں تو180روپے مالیت والے ماسک  کا ڈبہ1800 روپے تک فروخت ہوا، ہم روتے ہیں چینی اور آٹا چوروں کو … چینی چوروں سے یاد آیا کہ ہمارے وزیراعظم کے اے ٹی ایم کارڈ کی... شہرت پانے والے مشھور زمانہ جہانگیر ترین پی سی ایل کا میچ دیکھنے گرائونڈ میں پہنچے... تو عوام نے چینی چور کے نعرے لگا لگاکر آسمان سر پر اٹھالیا۔
لیکن میڈیکل سٹوروں، پر تو کوئی جہانگیر ترین نہیں تھا... پھر وہاں دس, دس روپے والا ماسک سو، سو روپے میں کیسے فروخت ہوا؟ ہمارا ایمان ہے کہ موت و حیات کا مالک پروردگار  ہے، موت نہ کلاشنکوف کی گولی میں ہے ، نہ توپ کے کسی گولے میں، اور نہ کسی بیماری کے وائرس میں بلکہ موت اللہ کے حکم کے ساتھ منسلک ہے… کرونا  وائرس سے ڈرا کر عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارنے والے ڈاکو یاد رکھیں... آج اگر عوام ہیں تو کل تمہاری باری بھی آکر رہے گی ، بے حیاء لٹیرو... تمہیں عوا م کو لوٹتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی؟ عوام کو چاہیے کہ وہ میڈیکل سٹوروں کی طرف بھاگنے کی بجائے پاکیزگی اختیار کریں … احتیاطی تدابیر بھی ضرور اختیار کریں، لیکن یاد رکھیں کہ پاکستان کے ہر شہر، گائوں اور قصبے میں  بڑے بڑے قبرستان جو قبروں سے بھرے ہوئے ہیں... ان میں سے کسی ایک قبر کی ذمہ داری بھی ''کرونا وائرس'' پرعائد نہیں کی جاسکتی … ہم نہ چینی ہیں، اور نہ چین میں رہتے ہیں، چین ہمارا دوست ملک ضرور ہے... لیکن ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان میں رہتے ہیں، خاتم الانبیاء نے خوردنوش کی جن چیزوں کو حلال قرار دیا انہیں حلال اور جن چیزوں کو حرام قرار دیا انہیں حرام سمجھتے ہیں، اگر ہم حلال اور حرام کے اسی معیار ، پاکیزگی اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ جڑے رہے تو کرونا وائرس کی ''ایسی کی تیسی'' … ایران سے در آنے ولے کرونا وائرس پر تو یہ قوم کسی نہ کسی قابو پاہی لے گی... مگر اس کرونا وائرس کا کیا کیا جائے... کہ جو پی ٹی آئی کے حکمرانوں کے اخلاق اور اعمال کو چمٹ چکا ہے۔
وفاقی وزیر فواد چودھری نے مختلف اوقات میں... دو مختلف اینکروں کے منہ پر تھپڑ مارے جس کی حکومتی حلقوں نے بھی مذمت کی تھی … مگر گزشتہ روز وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا  محمود خان نے فواد چودھری کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ... صحافی کو تھپڑ مار کر آپ نے بہترین کام کیا ، گو کہ پشاور پریس کلب کے صدر نے وزیر اعلیٰ محمود خان کی اس بات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ''تھپڑ مارنا کسی طور پر بھی جائز نہیں، ہم اس حوصلہ افزائی کے اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں '' ایک فواد چودھری کیاکم تھے ...کہ بیچ میں محمود خان بھی ٹپک پڑے … مطلب یہ کہ آوے کے آوا ہی بگڑا ہوا ہے … آج تو صحافی مذمت کررہے ہیں… ذرا سوچیئے کہ اگر کل کلاں کو کسی صحافی نے غصے میں آکر تھپڑوں کے شوقین کسی وزیر کے منہ مبارک پر تھپڑ جڑ دیا تو پھر کیا ہوگا؟ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ حکومت کی اخلاقیات چمٹے ہوئے کرونا وائرس کا بھی  کچھ علاج کریں، یہ قوم پہلے ہی بڑی تھپڑو، تھپڑی ہوچکی ہے… عالمی مجلس تحفظ ختم نبوتۖ کے قائدین نے حج فارم میں کی جانے والی نئی تبدیلی کو قادیانیت نوازی کی... بدترین مثا ل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہمیشہ حج فارم میں ایک حلف نامہ موجود ہوتا ہے...جسے پُر کرکے ہر مسلمان عقیدہ ختم نبوت پر اپنے ایمان کا برملا اعلان کرتا ہے … اس کا مقصد قادیانیوں، مرزائیوں یا احمدیوں کے داخلے سے حرمین کو محفوظ رکھنا ہوتاہے... کیونکہ آئین پاکستان کی رُو سے قادیانی، احمدی غیر مسلم ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے دھوکے سے حرمین میں داخل ہونا چاہتے ہیں ، چنانچہ ان کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے لئے... حج فارم میں ختم نبوت کا حلف نامہ رکھا گیا ہے، لیکن حج فارم2020 ء میں حج فارم کے دو حصے کرکے... اسے پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔
وزیراعظم کو چاہیے ...کہ حکومتی ایوانوں میں گھسے ہوئے قادیانی نواز وائرس... کا بھی سدباب کریں... تاکہ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف سازشیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں۔

جھوٹ اور دروغ گوئی کے عالمی ایوارڈ کا حقدار؟


جس صدر ٹرمپ کی نئی دہلی میں موجودگی کے دوران اپنے جائز انسانی حقوق مانگنے والے انسانوں کا قتل کیا جارہا ہو … اس ''ٹرمپ'' سے کشمیر کی ثالثی کروانا کشمیریوں پر بدترین ظلم ڈھانے کے مترادف ہے۔
اگر کوئی حکومتی کارندہ امریکہ سے دوستی کا دعویدار ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو کھربوں کے خطرناک ہتھیار دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں خطے کی چودھراہٹ دینے کا بھی اعلان کر دیا ہے... احمد آباد میں ہندو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے خطے میں امن کے معاملے میں انڈیا کے بڑے کردار کا بھی ذکر کیا۔
ٹرمپ نے دروغ گوئی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے انڈین قصائی اور بدنام زمانہ قاتل نریندر مودی کی... تعریف میں کہا کہ ہر کوئی ان سے (مودی) سے محبت کرتا ہے... لیکن میں آپ کو بتا د وں کہ یہ بہت سخت جان انسان ہیں، یہ صرف گجرات کی ریاست کا فخر نہیں ہیں … ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ اور بھارت اسلامی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکٹھے ہیں۔ امریکہ، بھارت کو دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار دے گا۔
امریکی صدر نے جھوٹ اور دروغ گوئی کی انتہا کو چھوتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مذہبی ہم آہنگی کو سراہتے ہیں … بھارت میں ہندو، مسلمان، سکھ، جین اور عیسائی اپنے اپنے مذہب کی عبادت کرتے ہیں، امریکی صدر نے بڑے مکارانہ اور شاطرانہ انداز میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا بھی ذکر کیا، نریندر مودی جیسے ہٹلر کی تعریفیں اور بھارت کی نامعلوم مذہبی آہنگی کو سراہ کر نجانے ڈونلڈ ٹرمپ... کس کو دھوکا دینا چاہتے ہیں؟ حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کے نام پر قتل کیا جارہا ہے اور کبھی متنازع شہریت قانون کے نام پر … بھارت میں نہ عیسائی محفوظ ہیں، نہ دلت محفوظ ہیں اور نہ ہی سکھ محفوظ ہیں، ٹرمپ کے دورہ بھارت سے چند دن قبل امریکہ کے مذہبی آزادی کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ''بھارت میں ہندوئوں کے علاوہ کسی کو آزادی نہیں، بھارت میں مسلمانوں، سکھوں اور مسیحی بھائیوں کے علاوہ دلتوں کے خلاف تشدد، دھمکیاں اور ہراساں کرنا عام ہوگیا ہے... تنگ نظریات بھارت میں کسی بھی صورت غیر ہندوئوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں، بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، پورے ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں،19 فروری کو امریکی کمیشن نے رپورٹ جاری کی جبکہ 24 فروری کو ٹرمپ دورہ بھارت پر پہنچے، امریکی کمیشن کی اس رپورٹ کے باوجود ٹرمپ کا نریندر مودی کی تعریفیں کرنا کیا یہ بات واضح کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ الکفر ملتہ واحدہ... یعنی کفر ایک ملت کی مانند ہے۔
نریندر مودی کی تعریف کرنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ سے زائد مظلوم انسانوں کے ... دلوں پر کیا گزرے گی؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو پاکستان سے بہتر تعلقات کے حوالے سے چند جملے کہے ، مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود امریکی پٹاری کے دانش چور انہیں لے کر ٹرمپ اور امریکہ دوستی کی حمایت میں پوری پوری داستانیں لکھ ڈالیں گے، سوال یہ بھی ہے کہ خطے میں امن کے حوالے سے انڈیا کے کس بڑے کردار کا ٹرمپ نے ذکر کیا ہے؟
خطے کے ممالک تو امن کے حوالے سے... انڈیا کے کسی چھوٹے سے کردار سے بھی واقف نہیں ہیں ...لیکن ٹرمپ امریکہ میں بیٹھ کر انڈیا کے بڑے کردار کو جانتے ہیں... توبہ، توبہ، توبہ، دنیا کی سپر پاور سمجھے جانے والے ملک کا سربراہ جھوٹ بولنے سے پہلے لمحہ بھر کے لئے بھی یہ نہیں سوچتا کہ آخر دنیا امریکہ کے .. بارے میں کیا سوچے گی؟
عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے دوست ٹرمپ سے پوچھ کر ہمیں بھی سمجھا دیں کہ آخر امریکہ اور بھارت نے اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہاں اکٹھے کام کیا؟ اور یہ بھی کہ ''اسلامی انتہا پسندی'' آخر کس بلا کا نا م ہے؟ جارج ڈبلیو بش، کلنٹن، براک اوبامہ ے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک ...صلیبی انتہا پسندی کو پروان چڑھاتے رہے ، انہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں کروسیڈی جنگ میں لاکھوں انسانوں کو مروایا … لاکھوں انسانوں کو معذور اور ہزاروں انسانوں کو ٹارچر سیلوں اور عقوبت خانوں کا رزق بناکر انسانیت کو رسوا کیا۔
''صلیبی'' جنگ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ٹھپہ لگاکر دنیا میں لاشوں اور خون کی تجارت کی ، دنیا کے اکتالیس ممالک کے تعاون سے افغانستان میں خون مسلم کو پانی کی طرح بہایا، عراق کو برباد کرکے وہاں 15 لاکھ کے لگ بھگ انسانوں کا قتل عام کیا، ہزاروں فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کی مکمل سرپرستی کی۔
نریندر مودی کو ''ہٹلر'' میں نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان نے قرار دیا ہے ، یہ وہی بدمعاش نریندر مودی ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے جس پر امریکہ اور یورپ نے پابندی عائد کر رکھی تھی ، اس نریندر مودی نے ہندوستان میں ہندوتوا کے مکروہ نظریات کو زندہ کیا … ہندو شدت پسندی کو عروج بخشا، ہندو انتہا پسندی کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا، فرقہ وارنہ خانوں میں انسانوں کو بانٹنے کی کوششیں کیں، مقبوضہ کشمیر کی اصل حیثیت کو جبر کے ساتھ ختم کرکے وہاں کرفیو لگاکر ایک کروڑ سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کا ناطقہ بند کرکے پورے کشمیر کو ان کے لئے جیل میں تبدیل کر ڈالا ، امریکہ صلیبی مائنڈ سیٹ اور بھارت ہندو مائنڈ سیٹ کے تحت بے گناہ انسانی لہو بہاکر بھی ہندو یا صلیبی انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں... لیکن کشمیر کے مسلمان ہوں، عراق کے مسلمان ہوں ، افغانستان کے مسلمان ہوں یا بھارت کے مسلمان … وہ اپنے دفاع کی کوشش بھی کریں تو اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گردی کے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے جائیں... اس جھوٹ، دروغ گوئی اور منافقت پر ٹرمپ کو ایوارڈ ملنا چاہیے۔

جنگ بندی اور نئی امریکی سازش کے لہراتے سائے


کیا امریکہ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن قائم کرنے کے حوالے سے مخلص ہے؟ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ماتھے پر عبرتناک شکست کا داغ لگوانے کے بعد افغان طالبان کو افغانستان کی حکمرانی کے تخت پر برداشت کر پائے گا؟ اگر امریکہ، افغان طالبان سے امن مذاکرات میں کامیابی حاصل کرکے29 فروری کو امن معاہدے پر فریقین کے دستخطوں کا اعلان کرنے والا تھا تو پھر عین اس موقع پر اس نے کٹھ پتی اشرف غنی کی ڈرامائی صدارت کا اعلان کیوں کیا؟
امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان16 ماہ کی بات چیت کے بعد (28 ستمبر 2018 ء سے لے کر فروری2020 ء تک) امریکہ اور طالبان قیادت نے افغانستان میں تشدد نہ کرنے کے لئے سات روزہ معاہدے پر اتفاق کیا ؁۔ اس معاہدے کو طالبان کے امیر نے افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے اپنے مجاہدین پر فوراً لاگو بھی کر دیا، طالبان ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ دراصل آگے چل کر ایک بڑے معاہدے اور صلح کی بنیاد ثابت ہوگا،29 فروری کوفر یقین قطر میں امن معاہدے پر دستخط کریں گے... اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا ۔ یہاں تک تو درست ہے... لیکن اس وقت امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ دونوں علیحدہ علیحدہ صدارتی حلف اٹھانے کی تیاریاں کررہے ہیں ...اور امریکہ کی زیرسرپرستی ہونے والے انتخابات اور اس کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے پرزور انداز میں مسترد کر دیا ہے ۔ امریکہ نے سیاسی عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کی آگ بھڑکا کر کہیں اک نئی خوفناک سازش کی بنیاد تو نہیں رکھ دی ... یعنی معاہدہ کرکے اپنے فوجی تو باہر بحفاظت نکال لے... لیکن افغان طالبان کو مقامی لڑائیوں میں الجھا کر خودکنارے بیٹھ کر تماشہ دیکھے؟
سنا ہے کہ افغان طالبان نے سات روزہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود ...ان کرتوتوں پر امریکہ کی نیت پر شک کا اظہار کیا ہے … جی ہاں سوال تو بنتا ہے اور اس سوال کو پوری شدت سے اٹھانا بھی لازم ہے... کہ جب امریکہ افغان طالبان سے کامیاب مذاکرات کرچکا تو پھر جعلی انتخابات کے مشکوک نتائج کی کوکھ سے کٹھ پتلی اشرف غنی کو برآمد کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟
کوئی راضی رہے یا ناراض ہو، مجھے امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے اس... امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں حالات اچھے نظر نہیں آرہے... طالبان کے ساتھ امن معاہدہ اور کابل کے تخت پر کٹھ پتلی اشر ف غنی کا دوبارہ تسلط ، یہ اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ کے دل میں ’’چور‘‘ اور زبان پر ’’امن‘‘ کا شور ہے، افغانستان تقریباً ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا ملک ہے... ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے ملک میں سے اشرف غنی کو9 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ پڑے ...جو کل آبادی کا پانچ فیصد بنتاہے، بمشکل پانچ فیصد ووٹ لینے والے شخص کو پورے ملک میں حکمرانی کا حق دینا ، کیا عوام کی توہین نہیں ہے؟
ملا محمد عمر مجاہدکے طالبان نے اپنی اٹھارہ سالہ بے مثال جدوجہد کے ذریعے عملی طور پر ثابت کیا کہ وہ ناصرف عسکری طور پر ناقابل شکست بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی انتہائی ذہین اور سنجیدہ ہیں، امریکہ جاتے جاتے... کابل میں شدید سیاسی عدم استحکام کی آگ پھیلانا چاہتا ہے ... تاکہ افغانستان اس آگ میں جلتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طالبان کی صفوں میں توڑ پیدا کرکے افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے ... امریکہ کی اس بدنیتی کے نتائج ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، یقیناً طالبان قیادت کی بھی اس ساری صورت حال پر گہری نظر ہوگی? طالبان قیادت سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے کہ یہی امریکہ تھا کہ جس نے 18 سال قبل جھوٹ کی بنیاد پر ان کی پرامن اسلامی حکومت پر شب خون مار کر افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں پر انسانی لہو بہایا تھا، 18 سال تک امریکی عفریت کا مقابلہ کرتے ہوئے افغان طالبان نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے... تو طالبان کے چھ سالہ اسلامی حکومت کے دور کو نکال کر افغانستان گزشتہ تقریباً35 سال سے انتہائی بدامنی اور مارا ماری کا شکار رہا۔
آج اگر طالبان کے امیر المومنین نے اپنے مجاہدین کو سات روزہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانے کا حکم دیاہے. . تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ،اگر طالبان اپنے اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے میں آئندہ بھی کامیاب رہے... اور انہوں نے افغانستان کے لاکھوں شہیدوں کے مقدس لہو کی لاج رکھتے ہوئے قرآن و سنت اور جہادکے دامن کو مزید مضبوطی سے تھامے رکھا... تو مجھے یقین ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی ہر سازش اپنی موت آپ مر جائے گی، جنگ بندی کا معاہدہ لاگو ہونے کے بعد طالبان مجاہدین پہاڑوں سے اتر کر شہروں کا رخ کررہے ہیں... اس موقع پر افغان عوام ان کا جس والہانہ انداز میں استقبال کررہے ہیں... وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آگ اور خون کا سمندر عبور کرنے والے طالبان آج بھی افغان عوام کے ہیرو ہیں... افغانستان کے عوام کو اپنے طالبان سے نہ صرف پیار بلکہ ان پر بے پناہ اعتماد بھی ہے۔

سعودی عرب میں مسئلہ قیدیوں کا


جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ نے واضح  کیا ہے کہ ''سعودی عرب میں پاکستانیوں کی گرفتاری اور ملک بدری کی خبروں میں صداقت نہیں ہے... ایسی افواہیں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔''
دوسری طرف جمعہ کے دن دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''سعودی عرب میں صرف پاکستانیوں کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی' سعودی حکومت ہر... سال ماہ رمضان سے قبل تمام غیر قانونی تارکین وطن اور ورکرز کے خلاف آپریشن کرتی ہے' ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ سعودی حکام نے حالیہ مہم کے دوران دیگر ملکوں کے غیر قانونی شہری بھی گرفتار کئے ہیں۔'' جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ اور اسلام آباد میں موجود ترجمان دفتر خارجہ کے بیانات سے واضح ہو رہا ہے... کہ سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم مکمل قانونی دستاویزات رکھنے والے پاکستانیوں کے خلاف نہیں بلکہ... سعودی عرب میں تمام ممالک کے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرکے انہیں اپنے اپنے ملک میں واپس بھیجا جارہا ہے' جوکہ جائز اور سعودی حکومت کا حق ہے۔
لیکن میری اس سلسلے میں سعودی حکام سے گزارش ہوگی کہ وہ سعودی سرزمین پر  غیر قانونی انداز میں رہنے والے پاکستانیوں... کو گرفتار کرنے کے بعد سعودی جیلوں میں بند کرنے کی بجائے واپس وطن بھجوا دیں' کیونکہ ان غریب الوطن پاکستانیوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے کہ جو اپنے اپنے خاندانوں کے واحد کفیل ہوں گے... اور غربت کی وجہ سے ان کے خاندانوں میں اتنی سکت بھی نہ ہو کہ وہ اپنے پیاروں کی رہائی کے حوالے سے اسلام آباد تک کا سفر بھی کر سکیں? سعودی حکومت سے بڑھ کر پاکستانیوں کی غربت سے اور کون واقف ہوسکتا ہے ؟ یقینا غیر ملکی  تارکین وطن' خواہ وہ پاکستانی ہوں' بنگلہ دیشی ہوں' انڈین ہوں' ایرانی ہوں یا یمنی' انہیں پکڑنا سعودی حکومت کا حق ہے' جہاں تک رہ گئی یہ بات کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے سعودی جیلیوں میں بند دو ہزار پاکستانی رہا کرنے کا اعلان کیا تھا… وہ قیدی ابھی تک رہا کیوں نہیں ہوسکے؟ تو یہ سوال بھی پاکستانی حکمرانوں سے بنتا ہے کہ ان پاکستانیوں کو رہا کروانے کے لئے پاکستانی حکام نے غفلت اور سستی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے قوانین اور عدالتیں بہت سخت ہیں… یہ تو پاکستانی حکمرانوں اور عدالتوں کی دریا دلی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جیسا بدنام زمانہ قاتل...''مجرم'' ہونے کے باوجود پورے پروٹوکول کے ساتھ رہا ہو کر امریکہ پہنچ کر اپنی مافوق الفطرت رہائی کی داستان پر کتاب لکھ کر ہمیشہ کیلئے پاکستان کی جگ ہنسائی کا بندوبست کر دیتا ہے… اب اگر سعودی عرب کے حکمران اس دریا دلی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دوست شہزادہ محمد بن سلمان سے ایک دفعہ پھر رابطہ کرکے انہیں یاد دہانی کروا دیں' لیکن سعودی عرب میں گرفتار پاکستانی قیدیوں کو  بنیاد بنا کر برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلانے والے… یا الیکٹرانک چینلز پر شور مچانے والے اینکرز اور اینکرنیوں اور مخصوص لابی کے فرقہ پرست عناصر سے میری گزارش ہے کہ  کیا دنیا میں پاکستانی صرف سعودی عرب کی جیلوں میں ہی بند ہیں؟
کیا امریکہ' انڈیا کی جیلوں سے لے کر لندن' فرانس' اٹلی' ایران سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی جیلوں میں کوئی پاکستانی بند نہیں ہے؟ دہلی کی تہاڑ جیل میں بند کم از کم ایسے پچیس' تیس پاکستانیوں کے نام ان کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں …کہ جو پندرہ' پندرہ سالوں سے اپنے جرم  بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہیں' بھارتی عدالتوں نے انہیں جو سزائیں سنائی تھیں وہ سزائیں بھی پوری کر چکے' مگر اس کے باوجود بھارت کے درندہ صفت حکمران ان پاکستانیوں کو رہا کرنے کے لئے تیار نہیں' یہ ٹارزن نما اینکرز' اینکرنیاں اور مخصوص لابی کے فرقہ  پرور' انڈیا میں قید پاکستانیوں کے حوالے سے آواز اٹھانے کے لئے  کیوں تیار نہیں ہوتے؟ حریت پسند مقبول بٹ کو پھانسی دیکر جیل کے اندر ہی دفن کر دیا گیا… مجاہد افضل گورو کو بلاجواز پھانسی دیکر اس کی قبر بھی تہاڑ جیل میں ہی بنا دی گئی' آج بھی بھارت کی جیلوں میں درجنوں پاکستانی سزائیں پوری ہونے کے باوجود گل سڑ رہے ہیں۔
 کشمیر کی  جیلیں ہوں یا بھارت کی جیلیں بے گناہ کشمیریوں سے بھری پڑی ہیں' لیکن اس سب کے باوجود وہ کون سا میڈیا گروپ تھا کہ جس نے بھارت کے ساتھ ''امن کی آشا'' کے نام پر ملک میں اودھم مچا رکھا تھا؟ جدہ میں پاکستانی قونصیلٹ کا یہ کہنا کہ سعودی عرب میں پاکستانیوں کی گرفتاری اور ملک بدری کی خبریں جھوٹی ہیں… اور ایسی افواہیں پھیلانے والے پاک سعودی تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں' بالکل درست ہے۔
اس قسم کی افواہوں کو بنیاد بنا کر بردار اسلامی ملک کے خلاف ٹاک شوز کرنے والے ہوں' سوشل میڈیا پر شور مچانے والے یا کالم لکھنے والے' وہ خود تو اسلام آباد' کراچی ...کے اپنے میڈیا دفاتر میں بغیر شناختی کارڈ کے کسی پاکستانی کو گھسنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ...لیکن سعودی عرب اگر اپنی سرزمین پر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کوئی آپریشن کرے تو اس پر انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے' سعودی عرب کی حکومت ہو یا کوئی اور... اگر ناجائز ظلم کرے تو اس پر ضرور تنقید ہونی چاہیے… لیکن ''قیدیوں'' کا حوالہ دیکر پاکستان کے مخلص اور دوست ملک کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنا نہ صرف ڈھٹائی ہے   بلکہ احسان فراموشی بھی )

کروز شپ ڈائمنڈ پرنسز میں سوار کورونا وائرس کا شکار 2 افراد چل بس

ٹوکیو کروز شپ ڈائمنڈ پرنسز میں سوار کورونا وائرس کا شکار 2 افراد چل بسے۔ جہاز میں سوار مجموعی طور پر وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 620 ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق کئی روز سے روکے گئے کروز شپ ڈائمنڈ پرنسز نامی جہاز میں پہلی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ خبر ایجنسی کے مطابق 2 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایک خاتون شامل ہے۔ ہیں جن میں ایک خاتون شامل ہے۔

اس سے قبل جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے جنوب میں یوکوہاما کی بندر گاہ پر لنگر انداز کروز شپ میں کئی دنوں سے روکے گئے ان مسافروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی جن کے خون کے نمونوں میں کورونا وائرس نہیں پایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ وائرس چین میں گزشتہ برس کے آخر میں سامنے آیا تھا جس سے ابھی تک چین میں 2100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جب کہ 74000 سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔

کروز شپ ڈائمنڈ پرنسز میں سوار 600 سے زائد مسافروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کروز شپ میں 3771 مسافر سوار ہیں۔ کروز کے ایک مسافر کے متاثر ہونے کے بعد کچھ ہی دنوں میں مزید مسافروں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ حکام کے مطابق فی الحال 500 کے قریب مسافروں کو اس کروز شپ سے نکالا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں جاپان پر تنقید ہوئی تھی کہ اس نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بروقت کارروائی نہیں کی۔ جاپان کے حکام اپنے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کروز شپ کو ساحل پر محدود کرنے سے یہ وائرس زیادہ نہیں پھیلا۔ جاپان میں عالمی ادارہ صحت کے سابق ریجنل سربراہ کہتے ہیں کہ اس کروز شپ کو ساحل تک محدود کرنے سے پہلے اس کے مسافروں میں وائرس پھیل گیا تھا۔

جبکہ جاپان مین کوبے یونیورسٹی کے پروفیسر کینتارو لواتا کا کہنا ہے کہ ساحل پر اس کو محدود کرنا ایک بڑی ناکامی اور غلطی ہے۔ جاپان کے اس اقدام سے امریکہ سمیت کئی ممالک مسافروں کو کروز شپ تک محدود کرنے پر مطمئن نہیں تھے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اپنے 328 مسافر کروز شپ ڈائمنڈ پرنسز سے نکال لیے تھے۔ ان مسافروں کو امریکہ میں بھی دو ہفتوں کے لیے الگ رکھا گیا۔

3771 افراد میں سے 2666 مسافر جبکہ باقی عملے کے اراکین تھے۔ کروز پر سوار افراد کا تعلق 56 ممالک سے تھا۔ جاپان کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ کروز شپ ڈائمنڈ کو 14 دنوں کے لیے ساحل پر روکا جائے گا تا کہ وائرس نہ پھیلے تاہم کئی دنوں بعد جاپانی حکومت نے ان مسافروں کو جہاز سے نکلنے کی اجازت دی جن کی عمریں 80 برس سے زیادہ تھی۔ اس کروز شپ کا عملہ 1045 افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ اراکین میں کورونا وائرس پایا گیا ہے جن کا علاج جاری ہے۔ عملے کے باقی اراکین اس وقت تک کروز میں رہیں گے جب تک مسافر نہیں جاتے تاہم پھر بھی اس عملے کو مزید 14 دن کے لیے سب سے الگ رکھا جائے گا۔


I Can Create Unique Customized QR Codes

I Can Create Unique Customized QR Codes

جنگ کھیڈ نہیں ہوندی زنانیاں دی


وزیراعظم عمرن خان نے اپنے منگل کے دن کیے گئے خطاب میں سوال اٹھایا ہے کہ بھارت سوچے کہ ''کشمیر کے نوجوان اس انتہا پر کیوں پہنچے کہ ان میں موت کاخوف ہی ختم ہوگیا''؟ بھارت کا دہشت گرد وزیراعظم نریندرمودی ہو ' بزدل آرمی چیف بپن راوت ہو' درندہ صفت اجیت دیول ہو یا لومڑ کی طرح مکار راجناتھ سنگھ اور لومڑی سشما سوراج' یہ سارے زہر کا پیالہ پی لیں گئے پر اس سوال کا جواب نہیں دیں گے … جب کشمیر کے نوجوانوں کو دجال بھارتی فوجی گاڑیوں کے پیچھے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹیں گے' جب مائوں کے سامنے ان کے کڑیل بیٹوں کو ' بہنوں کے سامنے ان کے بھائیوں کو ' بیویوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے خاوندوں کو تڑپا تڑپا کر مارا جائے گا… جب گھروں اورسکولوں میں گھس کر بھارتی فوج معصوم طلباء و طالبات پر گولیاں برسائے گی ' جب عفت مآب خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا جائے گا' جب جنرل بپن راوت آزادی کا حق مانگنے والوں کے پتھروں کاجواب گولیوں سے دینے کا آرڈر جاری کرے گا… جب بھارتی فوج کا کور کمانڈر جنرل ڈھلوں ''ہتھیار نہ ڈالنے  والے کشمیریوں کا انجام موت بتائے گا''۔
جب ایمنسٹی انٹرنیشنل کا سربرا ہ بھی چیخ اٹھے گا کہ ''کشمیریوں کو ٹارگٹ کرکے مارا جارہا ہے ' کشمیریوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہاہے ' حب الوطنی کی آڑ میں ہندوئوں کے بڑے بڑے ہجوم کشمیریوں پر حملے کررہے ہیں'' جب جیلوں کے اندر قید پاکستانی قیدیوں کو پتھر مار مار کر شہید کر دیا جائے گا … جب بے گناہ مقبول بٹ کو پھانسی دیکر اس کے جسد خاکی کو بھی تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر دیا جائے گا' جب حق آزادی مانگنے کے جرم میں محمد افضل گورو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد اس کی لاش کو بھی تہاڑ جیل کی دیواروں کے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کردیا جائے گا  تو پھر عادل احمد ڈار جیسے فدائی پیدا ہوتے رہیں گے'پھر کشمیر کے نوجوانوں کو زندگی سے زیادہ ''موت'' سے پیار ہو جائے گا' بلکہ انہیں موت میں ہی زندگی نظر آئے گی … قاتل نریندر مودی شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ اگر پاکستان پر حملہ کرے گا تو مقبوضہ کشمیر میں عادل ڈار پیدا ہونے بند ہو جائیں گے؟
اس موذی قاتل! کو کوئی بتائے کہ عادل ڈار جیسے فدائی ' پاکستان نے نہیں بلکہ تمہارے مظالم نے پیدا کیے ہیں ' کبھی مولانا محمد مسعود ازہر اور کبھی جیش محمد کا نام لینے سے … پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دینے سے تم مقبوضہ کشمیر کے غیرت مند نوجوانوں کے دلوں میں موت کا خوف پیدا نہیں کرسکتے' نہرو کاقتل ہونا' اندرا گاندھی پر گولیاں برسنا' راجیو گاندھی کا خودکش حملے کا نشانہ بننا' کیا یہ بھی جیش محمد کی وجہ سے تھا؟
بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کی موجودگی میں بھی اگر مقبوضہ کشمیر میں جیش محمد کے فدائی پائے جاتے ہیں تو پھر اس میں پاکستان کا کیاقصور؟ اس کاواضح مطلب یہ ہوا کہ جیش محمد سرینگر ' وادی لولاب' بڈگام' اننت ناگ اور جنت نظیر کشمیر کے دیگر علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تنظیم ہے' مقبوضہ کشمیر میں موجود جیش محمد کے مجاہدین پر پاکستان پابندی کیسے لگاسکتا ہے؟ نریندر مودی کی جیش محمد کے حوالے سے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی کوشش دراصل فوج کی ناکامی کا اعترا ف ہے۔
پس ثابت ہوگیا کہ دجال بھارتی فوجی معصوم بچوں' مظلوم عورتوں اور بوڑھوں پر تشدد تو کرسکتے ہیں مگر جیش محمد یا دیگر جہادیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے' یہ بات یاد رکھناضروری ہے کہ بھارت اگر خدانخواستہ پاکستان پر حملہ آور بھی ہوگا ' تب بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری جہاد نہیں رکے گا اور میری ریسرچ کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیں موجود جہادی تنظیموں کے ہزاروں مجاہد بھارتی شہروں کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں' اگر ایک عادل ڈار بھارت کی بنیادیں ہلا سکتا ہے تو عادل ڈار جیسے ہزاروں فد ائی اگر بھارتی شہروں میں پھیل گئے تو پھر نریندر مودی کیا کرلے گا' شاید یہ بات نریندر مودی بھی جانتا ہے اسی لئے وہ پاکستان پر حملے کیصرف  د ھمکیاں ہی دے رہاہے۔
نریندر مودی دراصل پلوامہ حملے کو استعمال کرکے بھارت کے اندر ہندو شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہاہے' یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج' میڈیا' سیاست دانوں سے لے کر بھارتی اداکاروں' گلوکاروں اور فنکاروں تک سب ہی شدت پسندی کی آگ میں جل رہے ہیں' کبھی بھارت کے ٹماٹر کھاکر بھارت سے ہی لڑنے کے  طعنے دے رہے ہیں اور کبھی سرجیکل سٹرائیک' سرجیکل سٹرائیک کا واویلا کررہے ہیں'  بھارتیوں کو کوئی بتائے کہ جنگ اور سرجیکل سٹرائیک کترینہ کیف کے ٹھمکوں کا نام نہیں ہے اور نہ ہی سرجیکل سٹرائیک امتیابھ جیسے ناچے کے ناچ کا  نام ہے ' بیوقوفی کی انتہا دیکھئے کہ جن سے عادل ڈار جیسے18  سال کے کشمیری فدائی قابو نہیں آرہے وہ ایٹمی ریاست پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں' یعنی کیا پدی اور کیا پدی کاشوربہ؟
ٹھیک کہا وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ''بھارت سے آوازیں آرہی ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھائو' بھارت نے حملہ کرنے کا سوچا تو ہم سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے اور بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا''… اب تو یورپی پارلیمنٹ کی انسانی حقوق کے بارے میں سب کمیٹی نے بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور  دیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کام سلسلہ روکنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔
پلوامہ حملے کے ردعمل میں پاکستان کو دھمکیاں دینا یا بھارت کے اندر موجود پاکستانیوں اور کشمیریوں پر حملے کرنے کی کوششیں کرنا … اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بات بھارت عملاً تسلیم کرچکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر  دراصل پاکستان کا ہی حصہ ہے' اور کشمیری قوم کو آزادی کے حصول سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی ۔

پاکستان اور سومناتی بندر


14 فروری کو نئی دہلی میں بھارت کے دہشت گرد وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں زمینی' ہوائی اور سمندری تینوں مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت کمار' وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔
دہلی سے ذرائع اس اجلاس کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر ہونے والے حملے کے جواب کے طریقہ کار پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا' باخبر ذرائع کے مطابق  آزاد کشمیر میں جیش محمد کے مبینہ کیمپوں پر حملے کے علاوہ سرجیکل سٹرائیک کے دیگر طریقے بھی زیر بحث آئے۔
دوسری طرف امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت اپنے دفاع میں کوئی بھی کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے' تیسری طرف بدمعاش ہندو جموں سے لے کر اترکھنڈ' ہریانہ تک بے گناہ مسلمانوں کی جان و مال پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے ہیں۔
انڈیا کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلباء پر بھی حملے کیے جارہے ہیں' دہشت گرد نریندر مودی بار بار  پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے … اس ساری صورت حال سے نہ تو صرف نظر ممکن ہے اور نہ ہی اسے پس پشت ڈالا جاسکتا ہے ` امریکہ مسلسل بھارت کو پاکستان پر حملے کے لئے اکسا رہا ہے'   حکومت اور پاکستانی میڈیا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان حالات میں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عالمی سطح پر بھارتی ظلم و زیادتیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی متحد کرنے کی کوشش کرے۔
ہمیں جنگ کی دعا تو نہیں مانگنا چاہیے لیکن اگر دہشت گرد نریندر مودی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے تو پھر اس کا ایسا شدید جہادی جواب دینا چاہیے کہ سومنات پر حملے کی طرح  جسے ہندو قیامت تک یاد رکھیں۔
ضلع پلوامہ میں بھارتی درندوں پر فدائی حملہ کرنے والا مجاہد عادل احمد ڈار عرف کمانڈر وقاص مقبوضہ کشمیر کا پیدائشی   اور رہائشی تھا … اس کے والد غلام حسین کہتے ہیں کہ ''عادل احمد ڈار ایک عام سا بچہ تھا لیکن 2016 ء میں سکول سے واپس آتے ہوئے بھارتی فوج نے اسے اور اس کے ساتھی طالبعلموں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی سخت بے عزتی کی' تب سے عادل ہر بھارتی فوجی سے شدید نفرت کرنے لگ گیا تھا۔''
فدائی عادل  ڈار کے والدین کے اس بیان کے بعد تو نریندر مودی ' بھارت کی تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور بھارتی میڈیا کو اپنی چارپانی کے نیچے ڈانگ پھیرے کی ضرورت تھی۔ وہ کھیسانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بار بار پاکستان پرحملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں' ان سومناتی بندروں! سے کوئی پوچھے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کے زیر انتظام ہے؟ کیا کبھی پاکستان نے کشمیر کو اپنا ''اٹوٹ انگ'' قرار دیا ہے؟ جب مقبوضہ کشمیر بھارت کے زیرقبضہ ہے … بھارت ہی چلا چلا کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور نریندر مودی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے کشمیر میں سخت ترین سیکورٹی انتظامات کر رکھے ہیں۔ بھارت کی8 لاکھ کے لگ بھگ فوج کشمیر کے گلی کوچوں میں ہر وقت موجود رہتی ہے اس کے باوجود بھی اگر مقبوضہ کشمیر میں جیش محمد جیسی طاقتور جہادی تنظیم کے عادل ڈار جیسے جہادی موجود تھے تو اس میں  پاکستان کا کیا قصور؟
نریندر مودی کو تو چاہیے تھا کہ وہ سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے گورنرستیہ پال ملک' قومی سلامتی کے مشیر اجیت دیول بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ اور بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کو کان پکڑوا کر ان کو پچاس پچاس جوتے مارتا اور پھر کشمیری عوام سے معافی مانگ کر کشمیر سے بھارتی فوج کے سورمائوں کی واپسی کا اعلان کر دیتا' کیونکہ جب مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے انسان بھارت اور اس کی فوج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں  ' جب کشمیر کے بچے' بوڑھے' جوان' مرد اور عورتیں بھارت کے زیر تسلط رہنے کے لئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں ہیںتو پھر بھارتی فوج کشمیر میں جھک کیوں مار رہی ہے؟
ابھی چند ہفتے قبل بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے فرعونی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ پتھر کا جواب گولی سے دیں' اس خاکسار نے اس وقت بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جنرل بپن راوت نے یہ فرعونی حکم دے کر بھارتی فوج کے خلاف سازش کی ہے' کشمیر کے نوجوان کوئی گائے' بیل یا بھیڑ بکریاں نہیں ہیں' اگر تم پتھر کا جواب گولی سے دو گے تو پھر ڈرو اس دن سے جب کشمیریوں نے تمہاری گولیوں کا جواب فدائی حملوں سے دینا شروع کر دیا ' اور پھر وہی ہوا جس کا ہم جیسوں کو ڈر تھا … بے پناہ بھارتی مظالم سے تنگ آئے ہوئے نوجوان زندگی پر موت کو ترجیح دینے پر مجبور کر دیئے گئے' ستر سالوں سے بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے' ستر سالوں سے بھارتی فوجی کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے  ہیں … بھارتی فوج اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے' لاکھوں زخمی اس کے علاوہ ہیں۔
ہزاروں عفت مآب خواتین بھارتی درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں' ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے ٹارچر سیلوں ' عقوبت خانوں اور ہندوستانی جیلوں کا رزق بنا دیا گیا ہے' پیلٹ گنوں کے ذریعے سینکڑوں کشمیری بچوں اور بچیوں کو نابینا بنا دیا گیا ہے' بھارتی فوج ہر روز بے گناہ کشمیری مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلتی ہے' جب بھارت ظلم و ستم کی تمام حدیں پار کر جائے گا تو پھر جوابی ردعمل میں کشمیری نوجوان بھارت کی دجالی فوج کو پھول پیش کرنے سے تو رہے۔
بے پناہ اور خوفناک بھارتی مظالم کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب کشمیر کے نوجوان فدائی کارروائیوں پر مجبور ہوئے ہیں' بھارتی فوجی تو سویلین آبادی کو نشانہ بناتی ہے' بھارتی فوج تو عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے' لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ عادل ڈار جیسے فدائیں مظلوم ہونے کے باوجود اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور وہ جواب میں عام ہندوئوں پر حملہ آور ہونے کی بجائے اپنی کارروائیوں کا نشانہ ظالم بھارتی فوج کو ہی بناتے ہیں … اگر بھارت فدائی حملوں جیسی تباہ کن کارروائیوں سے بچنا چاہتا ہے تو اس کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ وہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوج واپس بلوانے کا اعلان کر ے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھارت کشمیریوں کو ان کا حق آزادی  دے ' پاکستانی دفتر خارجہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان میں جیش محمد ایک کالعدم جماعت ہے۔
اگر ''تشریف'' پر مودی کے پچاس جوتے کھاکر جنرل بپن راوت کا دماغ تیز ہوگیا ہو تو اسے یہ سچ تسلیم کرلینا چاہیے کہ فدائی عادل احمد ڈار کا تعلق مقبوضہ کشمیر کی جیش محمد سے ہے اور مجھے لگ یہ رہا ہے کہ وہاں جیش محمد ابھی بھی موجود ہے 'نہ تم پتھر کا جواب گولی سے دیتے اور نہ تمہیں گولی کا جواب فدائی حملے کی صورت میں ملتا۔

شہریار آفریدی سے ایک سوال؟

ہر پاکستانی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا سانحہ ساہیوال میں ملوث سرکاری دہشتگردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا جائے گا؟ اکثر تجزیہ کاروں '  مبصرین اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے یہ ممکن  نہیں' گو کہ جے آئی ٹی بھی تحقیقات کر رہی ہے' اس کے بعد چاہے جوڈیشنل انکوائری بھی کروائی جائے' صدر مملکت سے لے کر وزیراعظم تک چاہے مجرمان کو سزا دینے کے جتنے مرضی بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں لیکن اس سب کے باوجود جو اس خونی واقعہ کے جو اصل مجرم ہیں وہ بچ جائیں گے' سوال یہ بھی ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے ان دہشتگردوں کو حقیقی سزا ہی دینا ہوتی تو پھر اس ایک واقعہ کی دو علیحدہ علیحدہ ایف آئی آرز کیوں کاتی جاتیں؟ شہید خلیل کے بھائی نے اس واقعہ کی ایف آئی آر ساہیوال  میں درج کروائی...جبکہ سی ٹی ڈی لاہور  پولیس اسٹیشن نے مشکوک مقابلے میں جاں بحق ہونے والے ذیشان اور دیگر کے خلاف مقدمے کا اندراج کرلیا ہے۔
اگر بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے درندوں کو سزا ہی دینا مقصود تھا تو پھر مقدمے کو الجھانے کے لئے دو مقدمات کا اندراج کیوں کیا گیا؟ پنجاب حکومت کے بعض وزیروں نے جس طرح سے سی ٹی ڈی کے اس مکروہ کارنامے کا دفاع کرنے کی کوششیں کیں وہ بھی سب کے سامنے ہے' جب اس سسٹم سے جڑے ہوئے تمام طاقتور عناصر ملزمان کا دفاع کرنے اور ملزمان کو ریلیف پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہیں گے تو پھر  نہ جعلی پولیس مقابلے بند ہوں گے اور نہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کے واقعات میں کمی آسکے گی... اب تو صورتحال کھل کر سامنے آگئی ہے اور یہ بات بھی کہ اس خونی آپریشن کے بعد سی ٹی ڈی نے پینترے بدل بدل کر جتنے دعوے بھی کئے وہ سب کے سب جھوٹے ثابت ہوئے۔
جعلی  مقابلے میں جاں بحق خلیل کے بھائی نے گزشتہ روز ایک نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اسے اصل مجرمان کا پتہ ہے' اس کا کہنا تھا کہ خلیل فیملی پر پہلی گولی ساہیوال پاکپتن چوک کے رہائشی ایک سی ٹی ڈی اہلکارنے چلائی تھی'' سوال یہ ہے کہ جب جاں بحق فیملی کے رشتہ داروں کو پہلی گولی فائر کرنے والے ملزم تک کے نام کا پتہ ہے تو پھر حکومت اور دیگر تفتیشی ادارے اس سے لاعلم کیوں ہیں؟ عوام یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اگر بے گناہ سویلین کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارنے والوں کو سزائیں دینا ہی ''ریاست'' کی ''ترجیح'' ہوتا تو پھر رائو انوار جیسا قاتل یوں آزادی کے ساتھ کیوں گھوم پھر رہا ہوتا؟
سینئر تجزیہ کار  مظہر عباس کی نجی چینل کے ایک پروگرام میں کی جانے والی گفتگو سن کر انسان دل تھام کے رہ جاتا ہے...وہ کہتے ہیں کہ ''جعلی مقابلوں میں بندے مارنا ''ریاستی'' پالیسی کے تحت ہوتا ہے' رائو انوار ' عابد باکسر' انسپکٹر ذیشان کاظمی ٹائپ کردار دراصل ریاست کی ضرورت ہوتے ہیں'' دلیل اس کی یہ ہے کہ چار سو سے زائد مقابلوں میں ماورائے عدالت انسانوں کا قتل عام کرنے والا رائو انوار آج بھی دندناتا ہوا پھر رہا ہے' اللہ کرے کہ یہ سب باتیں غلط ہوں' انسانوں کو ماورائے عدالت مروانا... جیتے جاگتے انسانوں کو لاپتہ کر دینا کسی بھی مہذب ریاست کی کبھی بھی مجبور نہیں ہوسکتی' اور پھر ''پاکستان'' تو وہ ریاست ہے کہ جس کو ''اسلام'' کے نام پر حاصل کیا گیا تھا جس کو ایک نظریاتی ریاست کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
اگر رائو انوار جیسے سی ٹی ڈی میں گھسے ہوئے خونخوار بھی ریاستی مجبوری بن جائیں تو پھر ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ یہاں قانون کی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے... قانون کے رکھوالوں کو ہر قیمت پر آئین اور قانون کے تحت رہتے ہوئے ہی اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں' اسی سے قانون کی حکمرانی کا تصور غالب آسکتا ہے۔
اگر خدانخواستہ ''ریاست'' رائو انوار ٹائپ درندوں کے دفاع پر آجائے گی تو اس کے بدترین اثرات سے معاشرہ محفوظ نہیں رہ سکے گا' سی ٹی ڈی کے جن اہلکاروں نے ساہیوال میں دہشتگردی کی'  تحقیقات کو صرف ان کے خلاف  محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کو آرڈر دینے والے افسران کو بھی نمونہ عبرت بنانا  قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے لازم ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے سابق حکومتوں کے مقابلے میں  عمران خان کا رویہ کچھ بہتر ہے ورنہ پرویز مشرف کی حکومت ہو یا زرداری اور نواز شریف کی حکومتیں' اس وقت تو جعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کو قتل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی...  بلکہ فورسز  میں موجود ان کائونٹر سپیشلسٹ 'براہ راست  حکمرانوں کے منظور نظر ہوا کرتے تھے۔
میں یہ بات بار بار اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے 'شریف برادران بالخصوص میاں شہباز شریف جعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں پر نوازشات کی بارش کیا کرتے تھے' لیکن مقام شکر ہے کہ سانحہ ساہیوال کے فوراً بعد... عمران خان نے وزیراعظم ہونے کے باوجود کم ازکم سی ٹی ڈی کے خونخواروں کی اس دہشتگردی کا دفاع کرنے کی کوشش تو نہیں کی؟
ہاں البتہ فواد چوہدری ' راجہ بشارت' گورنر سرور وغیرہ کی بات دوسری ہے' عمران خان کے موقف کے مقابلے میں ان کے پل' پل بدلتے موقف کی ذرا برابر  بھی اہمیت ہے اور نہ کوئی حیثیت' مہذب ریاستوں میں انسانی خون کی بڑی قدروقیمت ہوا کرتی ہے اور اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جس نے انسانی خون کو بیت اللہ سے بھی زیادہ قیمتی قرار دیا ہے۔
دہشت گرد' تخریب کار' بدمعاش' غنڈہ گرو  یہ تو معاشرے کے گھٹیا لوگ ہوتے ہیں... لیکن حکومتی فورسز کا کردار تو انسانی جان کی حرمت کو بچانے کے لئے سب سے اعلیٰ اور ارفع ہونا چاہیے 'اگر سی ٹی ڈی سمیت دیگر ریاستی ادارے انسانی جان کو ہی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو پھر ان میں اور دہشت گرد گروہوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟
شہریار آفریدی وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں' انہوں نے قومی اسمبلی میں جو گفتگو کی وہ نہایت فکر انگیز ہے' وہ کہتے ہیں کہ ''آج قوم میں اضطراب ہے' قوم' آبدیدہ ہے' والدین کو یہ بات کھٹک رہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ ساہیوال واقعہ کا ہم جواب دیں گے' اس واقعہ میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا نہ دے سکے تو میں وزرات چھوڑ دوں گا... تمام سیاسی جماعتیں یہ  حلف دیں کہ جس سیاسی جماعت میں ایک بھی مسلح فرد ہو' اس کی رکنیت ختم کر دی جائے... عابد باکسر' سانحہ ماڈل ٹائون' رائو انوار سمیت تمام کیسزز فوجی عدالتوں کو بھجوائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا'میرا شہریار آفریدی سے سوال یہ ہے کہ رائو انوار سانحہ ماڈل ٹائون اور عابد باکسر کے کیسزز کو فوجی عدالتوں میں بھجوانا' عوام کی ذمہ داری ہے یا پھر حکمرانوں کی؟

پیمرا کا ہومیو پیتھک ہدایت نامہ


کیا کبھی موت کو یاد رکھنے والا انسان گناہوں کی دلدل میں اتر سکتا ہے؟ رسول اکرمۖ سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ عقلمند کون ہے؟ خاتم الانبیائۖ نے ارشاد فرمایا''میری امت میں سب سے دانا اور عقلمند وہ شخص ہے جو موت کو یاد کرتا ہے اور مرنے کے بعد کی تیاری اچھی طرح کرتا ہے۔''
آج کے معاشرے میں سب سے زیادہ عقلمند اسے سمجھا جاتا ہے  جو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا ہنر جانتا  ہو' یا دوسروں کو دھوکا دینے کے فن میں یکتا ہو' زیادہ سے زیادہ دنیا بنانے کے چکر میں گھن چکر بننے والے انسان کو اور تو سب کچھ یاد ہے اگر نہیں یاد تو صرف ''موت''
لادینیت کو ''روشن خیالی'' کا پیراہن پہنانے سے قبل توپھر انسانوں میں اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی حس موجود تھی مگر برا ہو رسواکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے تاریک دور کا' کہ جس دور میں ''تاریکی'' کو روشنی' ظلم کو رحم' جھوٹ کو سچ' بے حیائی کو جدت پسندی اور لادینیت کو روشن خیالی کہنے کا چلن عام ہوا۔
جب معاشرہ ان برائیوں کا مجموعہ بن جائے گا' حکمران اور دانشور ایسے معاشرے پر شرمندہ ہونے کی بجائے اترائے پھریں گے تو ایسے مردہ معاشرے میں''موت'' کیسے یاد رہے گی؟
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے تمام ٹی وی چینلز کو ٹی وی ڈراموں کے موضوعات' عکس بندی اور پیشکش کے حوالے سے ہدایت نامہ جاری کیا ہے...ہدایت نامے میں ٹی وی چینلز کو حالیہ دنوں میں پیش کئے جانے والے موضوعات اور ان کی عکس بندی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ''پیمرا'' کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ٹی وی ڈرامے بتدریج اپنا معیار کھوتے جارہے ہیں' جس کے تحت متنازعہ و غیر اخلاقی معاملات ' موضوعات پر  ڈراموں کی عکس بندی معمول بن چکی  ہے' مزید برآں نامناسب لباس اور حرکات بھی آج کے ڈراموں کا خاصہ بن چکی ہیں' لہٰذا اس طرح کے ڈرامے ناظرین کے لئے ذہنی اذیت اور کوفت کا سبب بن رہے ہیں... اور ناظرین کی جانب سے ڈراموں کے مواد وار عکسبندی سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر لاتعداد شکایتیں موصول ہو رہی ہیں۔
علاوہ ازیں بیشتر ڈرامے ساس' بہو اور خاندانی لڑائیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے رحجانات کو فروغ دے رہے ہیں جوکہ نوجوانوں میں بے راہ روی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں' ڈراموں میں استعمال کی جانے والی زبان' مکالمے اور جملوں پر بھی ناظرین شدید تنقید کر رہے ہیں جوکہ خصوصاً بچوں پر منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب بن رہے ہیں' میں سب سے پہلے تو پیمرا کے ذمہ داران کی تحسین کرنا چاہتا ہوں کہ چلیں انہوں نے ٹی وی چینلز کی طرف سے بے حیائی و فحاشی کو رواج  بخشنے والے اس دور میں اپنی  ذمہ داریوں  کا کچھ تو احساس کیا' لیکن اس کے ساتھ ہی میرا پیمراء کے ذمہ داران سے یہ سوال بھی ہے کہ ان کے اس ہدایت نامے کا ٹی وی چینلز پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا وہ قوم کے بچوں پر منفی اثرات چھوڑنے والے ڈرامے اور پروگرام دکھانا بند کر دیں گے؟
کیا وہ قوم کے اخلاق و کردار کو برباد کرنے والی حرکتوں سے اس ہومیو پیتھک ہدایت نامے کی وجہ سے باز آجائیںگے؟ یاد رہے کہ اس سے قبل 4جنوری کے اخبارات میں بھی پیمراء کا اسی قسم کا ایک حکم نامہ شائع ہوا تھا' جس میں اسی طرح پیمراء نے تمام ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام کو گمراہ کرنے والے عطائیوں' کالے جادو' عاملوں' غیر مستند حکیموں' پیروں اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے اشتہارات فوری طور پر بند کر دیں۔
پیمرا کے یہ دونوں ہدایت نامے اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں؟ لیکن عوام پوچھتے ہیں کہ ان حکم ناموں پر عمل درآمد کتنا ہوا؟عوام کہتے ہیں کہ ٹی وی چینلز مالکان اور دیگر کرتا دھرتا' کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں کہ جنہیں قوم کے اخلاق و کردار کو تباہ کرنے والے ٹی وی ڈراموں' مارننگ شوز اور دیگر پروگراموں کا علم نہ  ہو بلکہ وہ تو مارننگ شوز اور کون  بنے گا کروڑ پتی جیسے بے راہ روی پھیلانے والے پروگراموں کے ہوسٹ مقرر ہی اسے چن کر کرتے ہیں کہ جسے بے حیائی' فحاشی' عریانی پھیلانے اور جھوٹ بولنے میں اتھارٹی حاصل ہو۔
ڈرامے تو پھر ڈرامے ہیں' یہاں مارننگ شوز اور نیلام گھر پروگراموں میں اینکرز اور اینکرنیاں بیہودگی اور یادہ گوئی کے ایسے ایسے مظاہرے پیش کرتی ہیں کہ جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے' پہلے کہا جاتا تھا کہ کچرے سے بجلی تیار کی جاسکتی ہے مگر ٹی وی چینلز کے پنڈتوں نے ''کچرے'' سے مارننگ شوز کے ہوسٹ تیار کرنے شروع کر رکھے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ جب  انسان کے دل سے اللہ کا  خوف نکل جائے' آنکھوں سے حیاء اٹھ جائے اور وہ موت کو بھول جائے تو پھر ایسا ''انسان'' صرف حیوان نہیں بلکہ حیوانوں  سے بھی بدتر ہو  جایا کرتا ہے۔ 
معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے والے قوم کے کروڑوں بچوں کو بداخلاقی کی طرف مائل کرنے والے خوف خدا سے عاری لوگ اس معاشرے کے لئے یہاں بسنے والے انسانوں کے لئے خطرہ ہیں پاکستان کے عوام ٹی وی چینلز کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی اور بے راہ روی سے سخت تنگ آچکے ہیں جس کا پیمراء خود اعتراف کر رہا ہے۔
عوام پاکستان کے حکمرانوں سے یہ چاہتے ہیں کہ پیمراء کے ہدایت نامہ جاری کرنے سے قبل جن' جن ٹی وی ڈراموں  یا پروگراموں کے ذریعے پاکستان میں بے راہ روی کو عام کیا گیا ایسے قبیح ترین جرم میں شریک تمام بدبودار کرداروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ پاکستانی معاشرے کو کوئی بے راہ روی کا شکار کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

عدالتوں اور افواج پاکستان کے خلاف بکواس کرنے پر کیا ارٹیکل 6 نہیں لگایا جا سکتا؟


ہمارے ہاں اپنے آپ کو سیاسی اورجمہوری کہنے والی پارٹیاں کیا واقعی سیاسی اور جمہوری ہیں؟ جس کو عرف عام میں شدت پسندی کہا جاتا ہے وہ کس بلا ء کا نام ہے؟ نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزہ سٹیل ملز ریفرنس میں7 سال قید بامشقت اور 5 ارب روپے جرمانہ کی سزا سنائی' تو ان کے حامیوںنے پہلے احتساب عدالت کے باہر اور پھر کوٹ لکھپت جیل کے باہر اک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی۔
نواز شریف کے حامیوں کی دونوں جگہوں پر پولیس سے مڈبھیڑ بھی ہوئی' لاٹھی چارج ' پتھرائو اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی ہوئی … کیا ایک ایسا قیدی کہ جس کو عدالت سزائے سنائے اس کے حامیوں کا پولیس سے ٹکرا جانا سیاسی یا جمہوری رویہ سمجھا جانا چاہیے؟
آصف علی زرداری کو کراچی میں جب عدالت نے طلب کیا تو وہ اپنے ساتھ پیپلز پارٹی کے حامیوں کی فوج ظفر موج لے کر عدالت پہنچے ' جلسوں میں3 سال کی مدت کے طعنے دیتے ہوئے اداروں کے سربراہوں پر گرجنا' برسنا' کبھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینا ' کیا ان رویوں کو سیاسی اور جمہوری کہا جائے گا؟
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی ایک دوسرے کے ساتھ مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں' ابھی چند ماہ پہلے ہی صدر مملکت کے انتخاب کے دوران متحدہ اپوزیشن ایک طرف اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی دوسری طرف کھڑی تھی …آصف زرداری کی پیپلز پارٹی شہباز شریف کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہ  تھی ' آصف زرداری کی سیاسی پرواز اس قدر بلندیوں پر تھی کہ اپنے ذاتی دوست مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں صدارتی الیکشن  میں چوہدری اعزاز احسن کو کھڑا کرنے میں ذرا بھر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔
مگر جب احتساب کا غلغلہ بلند ہوا' عدالتوں نے رسی کھینچنا شروع کی تو کیا پیپلز پارٹی اور کیا مسلم  لیگ ن' سب آپس میں شیر و شکر ہونے کے لئے تڑپنا شروع ہوگئے' چنانچہ آج دیکھ لیجئے! عوامی مسائل جائیں بھاڑ میں ' پوری ن لیگ' نوازشریف کے دفاع کے لئے وقف ہے جبکہ پوری پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کے دفاع کا مورچہ سنبھالے بیٹھی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ' نواز شریف اور ان کے خاندان اور پیپلز پارٹی زرداری خاندان کے تحفظ کے لئے معرض وجود میں لائی گئی تھی' کیا سیاست اور جمہوریت اسی کا نام ہے؟
قومی اسمبلی میں ناموس رسالتۖ کے حامیوں بالخصوص تحریک لبیک کے حوالے سے بات آئی تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئی … شراب پر پابندی کے حوالے سے بل پیش ہوا تو عمران خان کی حکومت' نواز شریف کی مسلم لیگ اور آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ایک پیج پر نظر آئیں 'لیکن عدالتیں جیسے ہی کرپشن میں مبتلا افراد پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے کرپٹ افراد کی حمایت میں یکجان ہو جاتی ہیں' کیا جمہویت اسی کانام ہے؟ آج اگر ن لیگ اور زرداری پارٹی ایک دوسرے کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہتی ہیں تو کس لئے؟ صرف اور صرف اپنی اپنی پارٹیوں کے کرپٹ افراد کو بچانے کے لئے اور اداروں پر دبائو بڑھانے کے لئے ' کیا جمہوریت اسی کا نام ہے؟
مندرجہ بالا ساری بحث اس خاکسار نے اس لئے چھیڑی تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ جنہیں ہم سیاستدان یا جمہوری پارٹیاں سمجھتے ہیں اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو اسلام سے کاٹ کر سیکولر بنانے کی کوشیں کرتے ہیں' شدت پسندی اور انتہا پسندی کا الزام مولویوں' مدرسوں اور اسلام پسندوں پر عائد کرتے ہیں وہ دراصل  خود نہ سیاسی اور نہ ہی جمہوری ہوتے ہیں بلکہ ان کی پوری سیاست اور جمہوریت اپنے انپے خاندانوں کے مفادات کے تحفظ اور کرپشن کو بچانے کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے ' سپریم کورٹ اگر ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ صادر کرے تو نواز شریف کی مسلم لیگ کہے  یہ فیصلہ بالکل درست ہے اور جو اس فیصلے کے خلاف جائے ' حکومت اس کے خلاف ظالمانہ آپریشن کرے تو بھی مسلم لیگ ن حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئے' لیکن جب احتساب عدالت نواز شریف کو کرپٹ قرار دیکر انہیں7 برس کی سزا دے تو مسلم لیگ ن اس کے خلاف نعرے بھی لگائے' احتجاج بھی کرے او ر پولیس پر پتھرائو بھی کرے … کیا اس دوہرے معیار کو منافقت نہیں کہا جائے گا؟
اگر عالمی صیہونی طاقتوں کی منظور نظر ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کا فیصلہ آئے  تو درست' لیکن اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آئے تو غلط؟ اس شدت پسندی کو بھی گر کوئی جمہوری سمجھتا ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے 'ہم  تو سیدھی بات کرنے کے عادی ہیں کہ جس طرح ملعونہ آسیہ مسیح  کی رہائی کا فیصلہ ن لیگ کے نزدیک درست تھا' بالکل اسی طرح احتساب عدالت کا نواز شریف کے خلاف آنے والا فیصلہ بھی سو فیصد درست ہے' جس طرح تحریک لبیک اور ناموس رسالتۖ کے دیگر کارکنوں کے خلا آپریشن کے حوالے سے ن لیگ حکومت کے ساتھ کھڑی تھی … بالکل اسی طرح اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں' نواز شریف کی حمایت میں پولیس سے ٹکرانے والوں کے خلاف اگر حکومت آپریشن کرتی ہے تو پوری قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی۔
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جیسے ہی نوز شریف کو عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی اس کے فوراً بعد نواز حامیوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاک فوج اور اس کے سپہ سالار کے خلاف بدتمیزی پر مبنی پروپیگنڈا شروع کر دیا ' ایسا کرنے والے کیا نواز شریف کی محبت میں ملکی مفاد کو بھی قربان کردیں گے؟
نواز شریف3 مرتبہ اس ملک کے وزیراعظم رہے' اس ملک سے انہوں نے کھربوں روپے کمائے' مگرافسوس کہ و ہ اپنے کارکنوں کو جمہوری رویہ سکھانے میں ناکام رہے۔
مسلم لیگ ن والو! جس طرح تمہاری قیادت  یہ چاہتی ہے کہ گستاخ رسول آسیہ ملعونہ کی رہائی کے عدالتی فیصلے کو پوری قوم تسلیم کرے ' بالکل اسی طرح اسے نواز شریف کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلے کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔
پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا نہ سیاست ہے اور نہ جمہوریت 'بلکہ یہ سراسر ملک دشمنی کے مترادف ہے۔

قصہ جنید پہلوان کا

کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔
ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔
جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔
اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔
کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔
اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا
جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔
ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔
(تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے کتاب زلف و انجیر صفحہ 72۔

افغانستان! ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور امریکی اسلحے کا قبرستان

اَفغان طالبان کی جہادی طاقت کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، امریکہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کر چکا۔۔۔ امریکی پٹاری کے دانش فروشوں کو اگر اب بھی تأمل ہے، حسن نثار اینڈ کمپنی اگر امریکہ کی افغانستان میں عبرتناک شکست کو جدید سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کے زور پر فتح میں بدل سکتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے۔۔۔ ان کے دیر کرنے سے کہیں امریکی رسہ تڑوا کر بھاگ جانے میں کامیاب نہ ہو جائیں!
سوال یہ ہے کہ اگر امریکی فوج پاکستان کے لبرل فسادیوں اور امریکی پٹاری کے دانش چوروں اور سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان میں فتح سے ہمکنار نہ ہو سکی تو پھر کیا ہوگا؟
میں آج کے کالم میں نہ تو ماسکو مذاکرات کا ذکر کروں گا۔۔۔ اور نہ ہی امریکہ کے حکم سے آزاد کئے جانے والے۔۔۔ طالبان راہنماؤں کا تذکرہ کروںگا، کیونکہ میں جہادی ثمرات سے بخوبی آگاہ ہوں، یہ تو معمولی بات ہے ،’’جہاد‘‘ تو اس سے بڑھ کر اپنی بہاریں دکھانے کی طاقت رکھتا ہے۔۔۔ گزرے چودہ سو سالوں میں نہ جانے دنیا نے وقت کی کتنی سپر پاورز کو مجاہدین کے ہاتھوں صفر پاور میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا؟ جارج ڈبلیو بش ہو، بارک اوبامہ ہو یا ٹرمپ، انہیں ہر مسئلے کا حل جنگ کے ذریعے ہی نظر آتا تھا، پھر ملا محمد عمر مجاہدؒ کے طالبان نے امریکہ کو’’جنگ‘‘ کا اصل مطلب ایسا خوب سمجھایا کہ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتی، جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ۔۔۔ افغانستان میں طالبان ابھی تک ہارے نہیں۔۔۔ بلکہ17سالہ جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے، اگر طالبان بات چیت کے لئے تیار ہو جائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہو گی۔
پاکستانی قوم کو امریکی اسلحے سے خوفزدہ کر کے ’’سائنس‘‘ کی طاقت کے گن گانے والے’’فرقہ باطلہ‘‘ کے’’پوتوں‘‘، ’’سپوتوں‘‘کو چاہئے کہ اگر وہ روک سکتے ہیں تو روک لیں۔۔۔ امریکہ، ملا محمد عمر مجاہدؒ کے طالبان سے مذاکرات شروع کر چکا ہے۔۔۔ امریکہ17سال بعد بھی افغان طالبان کی طاقت کا اعتراف کر رہا ہے۔
جس طرح امریکہ کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ رہا ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح امریکی پٹاری کے دانش فروشوں کو بھی اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑے گا، ہمارا مؤقف آج بھی وہی ہے۔۔۔جو17سال قبل تھا، یعنی مجاہدین اگر مخلص اور سچے ہوں تو پھر جہاد اپنی بہاریں دکھا کر ہی رہتا ہے۔۔۔30سال قبل سویت یونین کی فوجوں سے بے سروسامانی کے عالَم میں ٹکرانے والے افغان مجاہدین بھی مخلص اور سچے تھے۔۔۔ جب وہ جہادی میدانوں میں جہاد و قتال والی عبادت پہ ڈٹے رہے تو اللہ نے اپنی نصرت سے ان پر فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
اور پھر دنیا نے سرخ ریچھ کو افغانوں کے ہاتھ ٹکڑوں میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا، پھر امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کی تقریبا6سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔۔۔ امریکہ کو اسلامی حکومت ہضم نہ ہوئی تو اس نے بھی اسامہ بن لادنؒ کا بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کر دیا، تب قندھار کے مرد درویش نے فرمایا تھا کہ’’جنگ شروع امریکہ نے اپنی مرضی سے کی مگر جنگ اب ختم ہماری مرضی سے ہوگی‘‘، اس مرد ’’درویش‘‘ کی اس بات کو سن کر امریکی پٹاری کے دانش فروش اس پر طنز کے تیر برسایا کرتے تھے، لیکن آج17سال بعد وقت اور حالات نے ثابت کر دیا کہ قندھار کے مرد درویش حضرت ملا محمد عمر مجاہدؒ نے جو کہا تھا وہ حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔۔۔ اب امریکہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔۔۔ کبھی سعودی عرب اور کبھی پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے کہ۔۔۔ وہ طالبان کو مذاکرات کیلئے مجبور کریں۔۔۔ ملا محمد عمر اور ان کے طالبان پر طنز کے تیر برسانے والے امریکی راتب خوروں میں اگر ذرا سی بھی شرم ہے۔۔۔ تو انہیں چاہئے کہ وہ چُلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔۔۔ ان ڈگریوں کو آگ لگادیں، کہ جن ڈگریوں کو حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے آپ کو تیس مار خان قسم کا تجزیہ نگار، دانشور اور کالم نگار سمجھتے تھے، جس امریکہ کو راضی کرنے کیلئے وہ اپنے کالموں اور تجزیوں کے ذریعے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔۔۔۔ وہ امریکہ اپنے اسلحے سمیت’’شکست‘‘ کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا ہے۔
جبکہ افغان طالبان جہادی پرچم ہاتھوں میں تھامے آج بھی انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔۔۔ افغانستان کے کہسار امریکی اسلحے، امریکی ٹیکنالوجی اور امریکی فوجیوں کا قبرستان بن چکے ہیں، کسی نے اگر سائنسی ترقی کی بے چارگی، کم مائیگی اور ذلت آمیز شکست کو دیکھنا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سویت یونین کے ٹکڑوں میں تبدیل ہونے کے بعد۔۔۔ اب امریکہ کی عبرتناک شکست کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔
امریکہ افغانستان سے بھاگنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔۔۔ اور طالبان امریکی ٹیکنالوجی کے جنازے کو دھوم، دھام سے نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔۔۔ مجھے پُر اَسرار بیماری کا شکار بن کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے موت کا انتظار کرنے والے رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر ترس آرہا ہے۔۔۔ افسوس کہ اس کی بے دام غلامی بھی امریکہ کے کام نہ آئی۔
وہ ٹی وی چینلز پر دیکھتا تو ہو گا۔۔۔ اخبارات میں اپنے امریکی آقاؤں کی افغان طالبان کے ہاتھوں درگت بننے کی خبریں پڑھتا تو ہو گا، کہ17سال بعد امریکی جنرل جوزف نے کھلے عام طالبان کی طاقت اور امریکہ کی شکست کو تسلیم کر لیا ہے، امریکہ نے طالبان راہنماؤں کو قید خانوں سے نکلوا کر روس کے شہر ماسکو میں ان سے مذاکرات کئے ہیں۔۔ واہ، اللہ تیری قدرتوں پر قربان۔۔۔ تو نے ہم گنہگاروں کی زندگیوںمیں ہی رسوائے زمانہ پرویز مشرف کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر نشان عبرت بنا دیا، کوئی مانے نہ مانے، امریکہ افغانستان سے بچے، کھچے فوجی بچا کر واپسی کا راستے ڈھونڈ رہا ہے۔
مستقبل، میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ افغان طالبان نے شیخ الحدیث ملاہیبت اللہ کی قیادت میں جہادی پرچم ابھی تک تھام رکھا ہے، دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جہاد افغانستان امت مسلمہ کو کون، کون سی خوش خبریاں سناتا ہے۔
وما توفیقی الا باللہ

عہد فاروقیؓ میں ایک نوجوان کو زنا کے جرم میں سزا کیلئے لے جایا جارہا تھا وہ نوجوان چلا چلا کر کہنے لگا میں بے گناہ ہوں ،حضرت علیٰؓ نے یہ سنا تو ۔۔!!! پڑھئے ایمان تازہ کردینے والا واقعہ


اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈسیک ) ایک مرتبہ حضرت سیدنا عمرؓ کے عہد خلافت میں ایک لڑکے کو زنا کے جرم میں سزا دینے کیلئے لے جایا جارہا تھا(واضح رہے کہ اسلام میں شادی شدہ زانی کیلئے سنگسار اور غیر شادی شدہ کیلئے اسی کوڑے بطور سزا ہیں) وہ لڑکا اونچی اونچی آواز سے پکار رہا تھا کہ میں بے گناہ ہوں مجھے سزا نہ دی جائے ۔

حضرت علی ؓکا وہاں سےگزر ہوا تو حضرت علیؓ نے اس لڑکے کی پکار سن کر سرکاری اہلکاروں کو روکنے کا حکم فرمایااور لڑکے سے پوچھا کیا معاملہ ہے؟لڑکے نے حضرت علیؓ سے کہا کہ جناب! جس جرم نسبت میری طرف کی جارہی ہے وہ میں نے نہیں کیا ،دعویٰ کرنے والی میری ماں ہے۔حضرت علیؓ نے فرمایا اس کی سزا کو روک دیا جائے میں اس کیس کو دوبارہ سن لوں ۔اگر یہ لڑکا گناہ گار ہوا تو تب سزا دینا۔دوسرے دن حضرت علیؓ نے عورت اور لڑکے کوعدالت میں طلب فرمایا لیا،عورت سے پوچھا کیا اس نے تیرے ساتھ غلط کام کیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں، پھرحضرت علیؓ نےلڑکے سے پوچھا یہ عورت تیری کیا لگتی ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ میری ماں ہے،عورت نے اسے بیٹا ماننے سے انکار کردیا ،فیصلہ سننے کیلئے لوگوں کا بہت زیادہ ہجوم جمع تھا،حضرت علیؓ نے فرمایا تو اچھا پھر اے عورت!میں اس لڑکے کا تیرے ساتھ اتنے حق مہر کے بدلے نکاح کرتا ہوں تو عورت چیخ اٹھی کہ اے علی ؓ!کیا کسی بیٹے کا ماں کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے؟ حضرت علیؓ نے استفسار فرمایا کہ کیا مطلب ؟تو اس عورت نے جواب دیا کہ اے علیؓ !یہ لڑکا تو واقعی میرا بیٹا ہے اس پر حضرت سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کر سکتا ہے ؟ عورت نے کہا کہ نہیں ۔حضرت سیدنا علیؓ نے فرمایا تو پھر تونے اس اپنے بیٹے پر ایسا الزام کیوں لگایا؟ تو عورت نے جواب دیا ۔اے علیؓ! میری شادی ایک امیر کبیر شخص سے ہوئی تھی۔

اس کی بہت زیادہ جائیداد تھی یہ بچہ ابھی کمسن ،دودھ پیتا ہی تھا کہ میرا خاوند مر گیا،تو میرےبھائیوں نے مجھے کہا کہ یہ لڑکا تو اپنے باپ کی جائیداد کا وارث ہے اس کو کہیں چھوڑ آؤ میں اسے کسی آبادی میں چھوڑ آئی ،ساری جائیداد میری اور میرے بھائیوں کی ہوگئی ،یہ لڑکا بڑا ہوا تو ماں کی محبت نے اس کے دل میں انگڑائی لی ،یہ ماں کو تلاش کرتا کرتا میرے تک پہنچ گیا میرے بھائیوں نے مجھے پھر ورغلایا کہ اس پر جھوٹا الزام لگا کر اس کی زندگی کا سانس ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے تو میں نے اپنے ہی بیٹے پر جھوٹا الزام اپنے بھائیوں کی باتوں میں آکر لگا دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور بالکل بے گناہ ہے۔جب اس قضیٔے کا علم امیر المومنین،خلیفتہ المسلمین،خلیفۂ دوئم سیدنا عمر ابن خطاب ؓکو ہوا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ اگر آج علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوجاتا۔