عسکری تاریخ کے نامور سپہ سالار۔۔۔جلال الدین حقانی

عسکری تاریخ کے نامور سپہ سالار… جلال الدین حقانیؒ
قاری نوید مسعود ہاشمی کے قلم سے
سوچ رہا ہوںکہاں سے شروع کروں۔۔۔1997ء سے کہ جب انہوں نے افغانستان  پر حملہ آور سویت یونین کے خلاف ہاتھوں میں جہادی بندوق تھامی تھی۔۔۔1988 ء سے، کہ جب میں’’ژاور‘‘ میں ان کے مرکز پہنچا تھا۔۔۔ یا1991ء سے، کہ جب اس خاکسار نے ان کی زیر قیادت خوست کو فتح ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
ہم نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، محمد بن قاسمؒ، اور امام شاملؒ کو تو نہیں دیکھا۔۔۔ لیکن وقت کے جید علماء، اکابرین اور جہادی کمانڈران ان کو انہی کی طرح سمجھتے تھے۔۔۔ ان کے تقویٰ، عدی للہیت، اسلام اور مسلمانوں سے والہانہ محبت کودیکھ کر ایوبیؒ، قاسمؒ اور امام شاملؒ کی شخصیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا
وہ حق و صداقت کی نشانی، جلال الدین حقانیؒ تھے، اسلام کی عسکری تاریخ کا  ایک ایسا خوف خدا رکھنے والا بہادر جرنیل کہ جس کی مضبوط جہادی ضربوں نے سویت یونین سے لیکر امریکی فوج تک کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔
اگر میں یہ لکھ دوں کہ جلال الدین حقانیؒ حضرت سیدنا خالد بن ولیدؓ کی جرأت وبہادری کا تسلسل تھے، تو یقینا غلط نہ ہوگا، وہ ایک ایسے بہادر جرنیل تھے کہ مسلسل چالیس سالوں تک میدان جہاد میں ڈٹے رہے۔۔۔ اکثر جہادی معرکوں کی قیادت خود کرتے۔۔۔ ’’سپر پاور‘‘ سویت یونین اور پھر امریکہ جیسی’’ سپر پاور‘‘ نے آپ کو شکست دینے، شہید کرنے یا گرفتار کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے رکھا۔۔۔ لیکن نسبت سیف اللہؓ کی برکت تھی کہ جلال الدین حقانیؒ نے پہلے سویت یونین کا وجود ہی دنیا کے نقشے سے مٹا  ڈالا۔۔۔ اور پھر امریکہ جیسی سپر پاور کوصفر پاور میں تبدیل کر کے۔۔۔ افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اور پھر اپنی طبعی عمر پوری کر کے رب کے حضور جا پہنچے۔
افسوس کہ مسلمان ملکوں کے حکمران عالمی صہیونی طاقتوں کے غلام ہیں۔۔۔ ورنہ جلال الدین حقانی صرف افغانستان ہی نہیں پاکستان کے بھی محسن تھے۔۔۔ سویت یونین اگر گرم پانیوں تک پہنچنے سے پہلے ہی افغانستان کے کہساروں میں ہی دم توڑ گیا۔۔۔ تو یہ کریڈٹ مولانا حقانی جیسے افغان جرنیلوں کو ہی جاتا ہے۔
جلال الدین حقانی۔۔۔جرأت و غیرت کا استعارہ تھے۔۔۔ یہ اعزاز بھی وہ اپنے ساتھ ہی لئے گئے کہ ان کی جہادی بندوقوں کا رخ کبھی اپنوں کی طرف نہ ہوا۔۔۔ ہمیشہ ان کا نشانہ افغانستان پر حملہ کرنے والے ظالم اور جارح کافر ہی رہے۔۔۔ وہ رحماء بینھم کی عملی تفسیر بنے، تو رب العزت نے پھر ان کی جہادی ضربوں میں ایسی طاقت پیدا کر دی۔۔۔ کہ ضربیں کابل و قندھار میں لگتی تھیں۔۔۔ اور چیخیں واشنگٹن اور نیویارک سے نکلتی تھیں،ظالم  و درندہ صفت گورے منہ بگاڑ، بگاڑ کر جب ’’حقانی نیٹ ورک‘‘،’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی تسبیح پڑھتے  تو یہ جانتے ہوئے بھی روح تک سرشار ہو جاتی کہ حقانی’’نیٹ ورک‘‘ علیحدہ نہیں، بلکہ ملا محمد عمر مجاہد کے افغان طالبان کا ہی حصہ ہے، جلال الدین حقانی سویت یونین کے خلاف جہاد میں مولوی یونس خالص کے عسکری کماندان تھے تو ساتھ ہی افغانستان میں عملی طور پر بر سر پیکار مجاہد کمانڈروں کی مرکزی شوریٰ کے امیر بھی تھے۔
گلبدین حکمت یار ہو، برہان الدین ربانی ہوں، صبغت اللہ مجددی ہوں، استاد سیاف ہوں یا اس زمانے کے دیگر افغان قائدین۔۔۔ آپ کا احترام سب کرتے تھے۔۔۔ کابل کی فتح کے بعد جب گل بدین حکمت یار اوراحمدشاہ  مسعود کے درمیان فساد عروج پر تھا۔۔۔ اور اس فساد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔۔۔سیروبی،جلال آباد، غزنی و ہرات سے لیکر قندھار تک فسادی کمانڈروں نے جگہ، جگہ فسادی آگ  کو بھڑکا رکھا تھا۔۔۔ جلال الدین حقانی نے تب بھی اپنے مجاہدین کو ہر ذاتی ،گروہی جھگڑوں اور اقتدار پرست فسادیوں سے بچائے رکھا، پھر جب امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی شکل میں اللہ نے افغانوں کو نجات دہندہ عطاء فرمایا اور ملا محمد عمرؒ نے افغانستان کو وار لارڈز اور بدمعاش کمانڈروں کے تسلط سے آزاد کروانے کیلئے  جہادی یلغار کی۔۔۔ تو جہاں ایک طرف گلبدین حکمت یار، طالبان کے خوف سے ’’سیروبی‘‘ کی پناہ گاہ سے جوتے چھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہوا، تودوسری طرف جلال الدین حقانی نے اپنے تمام قسم کے اسلحے، سازو سامان اور مجاہدین سمیت امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کے دست حق پرست پر بیعت کر لی، احمد شاہ مسعود، ربانی، ارسلان رحمانی کیسے کیسے نام تھے کہ  جو امریکیوں کی حمایت کے جرم میں مارے گئے۔
گلبدین حکمت یار مخصوص پناہ گاہ سے نکلے تو سیدھے کابل میں امریکی کٹھ پتلی ڈاکٹر اشرف غنی کے دستر خوان پر جا بیٹھے۔۔۔ اشرف غنی کہ جو خود امریکی ڈالروں پر پل رہا ہے۔۔۔ جناب حکمت یار کے لئے’’من و سلویٰ‘‘ کہاں سے آتا ہوگا؟ بوجھوتو جانیں؟
بہرحال، جلال الدین حقانی نہ انا پرستی، نہ غرور، نہ طاقت کا گھمنڈ، انہوں نے جب اپنا ہاتھ ملامحمد عمر مجاہد کے ہاتھ میں دیا تو پھر۔۔۔ ان کی اطاعت کا حق ادا کر دیا۔۔۔ وہ صرف نام کے ’’جلال الدین‘‘ہی نہ تھے بلکہ دینی غیرت کا شاہکار بھی تھے۔۔۔ کمیونسٹ ڈاکٹر نجیب اللہ جس خوست کو لٹل ماسکو کہا کرتا تھا۔۔۔ جلال الدین حقانی کی قیادت میں جب شیر دل مجاہدین نے خوست پر آخری یلغار کی، تو مجھے یاد ہے کہ وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔۔۔ ہم روزہ رکھ کر خوست کو فتح کرنے کیلئے آگے بڑھے تھے۔۔۔ اور پھر افطاری کئے بغیر مسلسل آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔۔۔یہاں تک کہ رات تقریبا ساڑھے 9بجے کے لگ بھگ خوست کے قصبوں، دیہاتوں ، بازاروں اور ایئر پورٹ کا قبضہ لینے کے بعد خوست کے آخری متون قلعے میں گھس چکے تھے۔۔۔ جنرل کمانڈر جلال الدین حقانی کا پیغام ایک،ایک مجاہد کو پہنچایا گیا کہ کوئی مجاہد کسی گھر سے کوئی چیز نہیں لے گا، اپنی عورتوں کو چھوڑ کر فرار ہونے والے روسیوں اور گلم جم ملیشیاء کا تعاقب تو ضرور کیا جائے۔۔۔ مگر گرفتار خواتین کا مکمل احترام کیا جائے گا، کمزوروں،عورتوں اور بچوں پرقطعا ہاتھ نہیں اٹھایا  جائے گا، مولانا عزیز الحق اچھڑیاں والے کہ جن کا گزشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوا،اللہ ان کی کامل مغفرت فرمائے(آمین) اور حافظ رب نواز جتوئی میرے ساتھے تھے، میںٹھہرا نرا،ایک کالم نگار،صحافی اور یہ تھے غیرت کا شاہکارمجاہد۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ متون قلعے کے کونوں، کھدروں میں چھپے ہوئے دشمنوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا۔۔۔ تاآنکہ کسی دشمن خدا کی زڑکئی کی ایک گولی میرے دوست حافظ رب نواز جتوئی کے سینے میں آن لگی، شیردل، مجاہد رب نوازؒ کے سینے سے خون ابلناشروع ہوا، تو وہ لڑکھڑایا، مولانا عزیز الحق نے چھلانگ لگا کر ایک ہاتھ میں گن تھامی اور دوسرے ہاتھ سے اسے سنبھالنے کی کوشش کی، دشمن کی گولیاں ہمارے سروں اور دائیں، بائیں سے گزر رہی تھیں۔۔۔ ہم نے مل کر حافظ رب نواز کو اٹھانے کی کوشش کو تو اس نے یہ کہہ کر ہمیں دھکیلنے کی کوشش کی کہ’’میری فکر چھوڑو۔۔۔ دشمن کا مقابلہ کرو‘‘
دشمن کامقابلہ تو پھر ایسا کیا کہ متون قلعہ بالآخر فتح ہوا۔۔۔ مگر حافظ رب نواز کلمہ طیبہ کا وِرد کرتے ہوئے۔۔۔ شہادت کا جام نوش کر گیا،فتح خوست کی تفصیلات اور آنکھوں دیکھے نصرت خداوندی کے واقعات تو بہت ہیں۔۔۔ مگر آج کے’’قلم تلوار‘‘ کا موضوع قائد ربانی، جلال الدین حقانی ہیں۔۔۔ اس لئے ان تفصیلات کو یہیں چھوڑ کر موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔(باقی آئندہ)
٭…٭…٭

No comments:

Post a Comment