جنگ بندی اور نئی امریکی سازش کے لہراتے سائے


کیا امریکہ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن قائم کرنے کے حوالے سے مخلص ہے؟ کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ماتھے پر عبرتناک شکست کا داغ لگوانے کے بعد افغان طالبان کو افغانستان کی حکمرانی کے تخت پر برداشت کر پائے گا؟ اگر امریکہ، افغان طالبان سے امن مذاکرات میں کامیابی حاصل کرکے29 فروری کو امن معاہدے پر فریقین کے دستخطوں کا اعلان کرنے والا تھا تو پھر عین اس موقع پر اس نے کٹھ پتی اشرف غنی کی ڈرامائی صدارت کا اعلان کیوں کیا؟
امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان16 ماہ کی بات چیت کے بعد (28 ستمبر 2018 ء سے لے کر فروری2020 ء تک) امریکہ اور طالبان قیادت نے افغانستان میں تشدد نہ کرنے کے لئے سات روزہ معاہدے پر اتفاق کیا ؁۔ اس معاہدے کو طالبان کے امیر نے افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے اپنے مجاہدین پر فوراً لاگو بھی کر دیا، طالبان ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ دراصل آگے چل کر ایک بڑے معاہدے اور صلح کی بنیاد ثابت ہوگا،29 فروری کوفر یقین قطر میں امن معاہدے پر دستخط کریں گے... اور اس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا ۔ یہاں تک تو درست ہے... لیکن اس وقت امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ دونوں علیحدہ علیحدہ صدارتی حلف اٹھانے کی تیاریاں کررہے ہیں ...اور امریکہ کی زیرسرپرستی ہونے والے انتخابات اور اس کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے پرزور انداز میں مسترد کر دیا ہے ۔ امریکہ نے سیاسی عدم استحکام اور سیاسی بے یقینی کی آگ بھڑکا کر کہیں اک نئی خوفناک سازش کی بنیاد تو نہیں رکھ دی ... یعنی معاہدہ کرکے اپنے فوجی تو باہر بحفاظت نکال لے... لیکن افغان طالبان کو مقامی لڑائیوں میں الجھا کر خودکنارے بیٹھ کر تماشہ دیکھے؟
سنا ہے کہ افغان طالبان نے سات روزہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود ...ان کرتوتوں پر امریکہ کی نیت پر شک کا اظہار کیا ہے … جی ہاں سوال تو بنتا ہے اور اس سوال کو پوری شدت سے اٹھانا بھی لازم ہے... کہ جب امریکہ افغان طالبان سے کامیاب مذاکرات کرچکا تو پھر جعلی انتخابات کے مشکوک نتائج کی کوکھ سے کٹھ پتلی اشرف غنی کو برآمد کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟
کوئی راضی رہے یا ناراض ہو، مجھے امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے اس... امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں حالات اچھے نظر نہیں آرہے... طالبان کے ساتھ امن معاہدہ اور کابل کے تخت پر کٹھ پتلی اشر ف غنی کا دوبارہ تسلط ، یہ اس بات کا غماز ہے کہ امریکہ کے دل میں ’’چور‘‘ اور زبان پر ’’امن‘‘ کا شور ہے، افغانستان تقریباً ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ آبادی والا ملک ہے... ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے ملک میں سے اشرف غنی کو9 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ پڑے ...جو کل آبادی کا پانچ فیصد بنتاہے، بمشکل پانچ فیصد ووٹ لینے والے شخص کو پورے ملک میں حکمرانی کا حق دینا ، کیا عوام کی توہین نہیں ہے؟
ملا محمد عمر مجاہدکے طالبان نے اپنی اٹھارہ سالہ بے مثال جدوجہد کے ذریعے عملی طور پر ثابت کیا کہ وہ ناصرف عسکری طور پر ناقابل شکست بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی انتہائی ذہین اور سنجیدہ ہیں، امریکہ جاتے جاتے... کابل میں شدید سیاسی عدم استحکام کی آگ پھیلانا چاہتا ہے ... تاکہ افغانستان اس آگ میں جلتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ طالبان کی صفوں میں توڑ پیدا کرکے افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے ... امریکہ کی اس بدنیتی کے نتائج ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، یقیناً طالبان قیادت کی بھی اس ساری صورت حال پر گہری نظر ہوگی? طالبان قیادت سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے کہ یہی امریکہ تھا کہ جس نے 18 سال قبل جھوٹ کی بنیاد پر ان کی پرامن اسلامی حکومت پر شب خون مار کر افغانستان کے پہاڑوں اور چٹانوں پر انسانی لہو بہایا تھا، 18 سال تک امریکی عفریت کا مقابلہ کرتے ہوئے افغان طالبان نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے... تو طالبان کے چھ سالہ اسلامی حکومت کے دور کو نکال کر افغانستان گزشتہ تقریباً35 سال سے انتہائی بدامنی اور مارا ماری کا شکار رہا۔
آج اگر طالبان کے امیر المومنین نے اپنے مجاہدین کو سات روزہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانے کا حکم دیاہے. . تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ،اگر طالبان اپنے اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے میں آئندہ بھی کامیاب رہے... اور انہوں نے افغانستان کے لاکھوں شہیدوں کے مقدس لہو کی لاج رکھتے ہوئے قرآن و سنت اور جہادکے دامن کو مزید مضبوطی سے تھامے رکھا... تو مجھے یقین ہے کہ ان کے خلاف ہونے والی ہر سازش اپنی موت آپ مر جائے گی، جنگ بندی کا معاہدہ لاگو ہونے کے بعد طالبان مجاہدین پہاڑوں سے اتر کر شہروں کا رخ کررہے ہیں... اس موقع پر افغان عوام ان کا جس والہانہ انداز میں استقبال کررہے ہیں... وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آگ اور خون کا سمندر عبور کرنے والے طالبان آج بھی افغان عوام کے ہیرو ہیں... افغانستان کے عوام کو اپنے طالبان سے نہ صرف پیار بلکہ ان پر بے پناہ اعتماد بھی ہے۔

No comments:

Post a Comment