افغانستان! ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی اور امریکی اسلحے کا قبرستان

اَفغان طالبان کی جہادی طاقت کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، امریکہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کر چکا۔۔۔ امریکی پٹاری کے دانش فروشوں کو اگر اب بھی تأمل ہے، حسن نثار اینڈ کمپنی اگر امریکہ کی افغانستان میں عبرتناک شکست کو جدید سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کے زور پر فتح میں بدل سکتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے۔۔۔ ان کے دیر کرنے سے کہیں امریکی رسہ تڑوا کر بھاگ جانے میں کامیاب نہ ہو جائیں!
سوال یہ ہے کہ اگر امریکی فوج پاکستان کے لبرل فسادیوں اور امریکی پٹاری کے دانش چوروں اور سائنسی آلات اور ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان میں فتح سے ہمکنار نہ ہو سکی تو پھر کیا ہوگا؟
میں آج کے کالم میں نہ تو ماسکو مذاکرات کا ذکر کروں گا۔۔۔ اور نہ ہی امریکہ کے حکم سے آزاد کئے جانے والے۔۔۔ طالبان راہنماؤں کا تذکرہ کروںگا، کیونکہ میں جہادی ثمرات سے بخوبی آگاہ ہوں، یہ تو معمولی بات ہے ،’’جہاد‘‘ تو اس سے بڑھ کر اپنی بہاریں دکھانے کی طاقت رکھتا ہے۔۔۔ گزرے چودہ سو سالوں میں نہ جانے دنیا نے وقت کی کتنی سپر پاورز کو مجاہدین کے ہاتھوں صفر پاور میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا؟ جارج ڈبلیو بش ہو، بارک اوبامہ ہو یا ٹرمپ، انہیں ہر مسئلے کا حل جنگ کے ذریعے ہی نظر آتا تھا، پھر ملا محمد عمر مجاہدؒ کے طالبان نے امریکہ کو’’جنگ‘‘ کا اصل مطلب ایسا خوب سمجھایا کہ امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں ہوا کرتی، جنرل جوزف کا کہنا تھا کہ۔۔۔ افغانستان میں طالبان ابھی تک ہارے نہیں۔۔۔ بلکہ17سالہ جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے، اگر طالبان بات چیت کے لئے تیار ہو جائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہو گی۔
پاکستانی قوم کو امریکی اسلحے سے خوفزدہ کر کے ’’سائنس‘‘ کی طاقت کے گن گانے والے’’فرقہ باطلہ‘‘ کے’’پوتوں‘‘، ’’سپوتوں‘‘کو چاہئے کہ اگر وہ روک سکتے ہیں تو روک لیں۔۔۔ امریکہ، ملا محمد عمر مجاہدؒ کے طالبان سے مذاکرات شروع کر چکا ہے۔۔۔ امریکہ17سال بعد بھی افغان طالبان کی طاقت کا اعتراف کر رہا ہے۔
جس طرح امریکہ کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ رہا ہے۔۔۔ بالکل اسی طرح امریکی پٹاری کے دانش فروشوں کو بھی اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑے گا، ہمارا مؤقف آج بھی وہی ہے۔۔۔جو17سال قبل تھا، یعنی مجاہدین اگر مخلص اور سچے ہوں تو پھر جہاد اپنی بہاریں دکھا کر ہی رہتا ہے۔۔۔30سال قبل سویت یونین کی فوجوں سے بے سروسامانی کے عالَم میں ٹکرانے والے افغان مجاہدین بھی مخلص اور سچے تھے۔۔۔ جب وہ جہادی میدانوں میں جہاد و قتال والی عبادت پہ ڈٹے رہے تو اللہ نے اپنی نصرت سے ان پر فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔
اور پھر دنیا نے سرخ ریچھ کو افغانوں کے ہاتھ ٹکڑوں میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا، پھر امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہدؒ کی تقریبا6سال تک اسلامی حکومت قائم رہی۔۔۔ امریکہ کو اسلامی حکومت ہضم نہ ہوئی تو اس نے بھی اسامہ بن لادنؒ کا بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کر دیا، تب قندھار کے مرد درویش نے فرمایا تھا کہ’’جنگ شروع امریکہ نے اپنی مرضی سے کی مگر جنگ اب ختم ہماری مرضی سے ہوگی‘‘، اس مرد ’’درویش‘‘ کی اس بات کو سن کر امریکی پٹاری کے دانش فروش اس پر طنز کے تیر برسایا کرتے تھے، لیکن آج17سال بعد وقت اور حالات نے ثابت کر دیا کہ قندھار کے مرد درویش حضرت ملا محمد عمر مجاہدؒ نے جو کہا تھا وہ حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔۔۔ اب امریکہ طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے۔۔۔ کبھی سعودی عرب اور کبھی پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے کہ۔۔۔ وہ طالبان کو مذاکرات کیلئے مجبور کریں۔۔۔ ملا محمد عمر اور ان کے طالبان پر طنز کے تیر برسانے والے امریکی راتب خوروں میں اگر ذرا سی بھی شرم ہے۔۔۔ تو انہیں چاہئے کہ وہ چُلو بھر پانی میں ڈوب مریں۔۔۔ ان ڈگریوں کو آگ لگادیں، کہ جن ڈگریوں کو حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے آپ کو تیس مار خان قسم کا تجزیہ نگار، دانشور اور کالم نگار سمجھتے تھے، جس امریکہ کو راضی کرنے کیلئے وہ اپنے کالموں اور تجزیوں کے ذریعے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔۔۔۔ وہ امریکہ اپنے اسلحے سمیت’’شکست‘‘ کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا ہے۔
جبکہ افغان طالبان جہادی پرچم ہاتھوں میں تھامے آج بھی انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔۔۔ افغانستان کے کہسار امریکی اسلحے، امریکی ٹیکنالوجی اور امریکی فوجیوں کا قبرستان بن چکے ہیں، کسی نے اگر سائنسی ترقی کی بے چارگی، کم مائیگی اور ذلت آمیز شکست کو دیکھنا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سویت یونین کے ٹکڑوں میں تبدیل ہونے کے بعد۔۔۔ اب امریکہ کی عبرتناک شکست کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔
امریکہ افغانستان سے بھاگنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔۔۔ اور طالبان امریکی ٹیکنالوجی کے جنازے کو دھوم، دھام سے نکالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔۔۔ مجھے پُر اَسرار بیماری کا شکار بن کر ایڑیاں رگڑتے ہوئے موت کا انتظار کرنے والے رسوا کن ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر ترس آرہا ہے۔۔۔ افسوس کہ اس کی بے دام غلامی بھی امریکہ کے کام نہ آئی۔
وہ ٹی وی چینلز پر دیکھتا تو ہو گا۔۔۔ اخبارات میں اپنے امریکی آقاؤں کی افغان طالبان کے ہاتھوں درگت بننے کی خبریں پڑھتا تو ہو گا، کہ17سال بعد امریکی جنرل جوزف نے کھلے عام طالبان کی طاقت اور امریکہ کی شکست کو تسلیم کر لیا ہے، امریکہ نے طالبان راہنماؤں کو قید خانوں سے نکلوا کر روس کے شہر ماسکو میں ان سے مذاکرات کئے ہیں۔۔ واہ، اللہ تیری قدرتوں پر قربان۔۔۔ تو نے ہم گنہگاروں کی زندگیوںمیں ہی رسوائے زمانہ پرویز مشرف کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر نشان عبرت بنا دیا، کوئی مانے نہ مانے، امریکہ افغانستان سے بچے، کھچے فوجی بچا کر واپسی کا راستے ڈھونڈ رہا ہے۔
مستقبل، میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ افغان طالبان نے شیخ الحدیث ملاہیبت اللہ کی قیادت میں جہادی پرچم ابھی تک تھام رکھا ہے، دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جہاد افغانستان امت مسلمہ کو کون، کون سی خوش خبریاں سناتا ہے۔
وما توفیقی الا باللہ

No comments:

Post a Comment