شہریار آفریدی سے ایک سوال؟

ہر پاکستانی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا سانحہ ساہیوال میں ملوث سرکاری دہشتگردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا جائے گا؟ اکثر تجزیہ کاروں '  مبصرین اور دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے یہ ممکن  نہیں' گو کہ جے آئی ٹی بھی تحقیقات کر رہی ہے' اس کے بعد چاہے جوڈیشنل انکوائری بھی کروائی جائے' صدر مملکت سے لے کر وزیراعظم تک چاہے مجرمان کو سزا دینے کے جتنے مرضی بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں لیکن اس سب کے باوجود جو اس خونی واقعہ کے جو اصل مجرم ہیں وہ بچ جائیں گے' سوال یہ بھی ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے ان دہشتگردوں کو حقیقی سزا ہی دینا ہوتی تو پھر اس ایک واقعہ کی دو علیحدہ علیحدہ ایف آئی آرز کیوں کاتی جاتیں؟ شہید خلیل کے بھائی نے اس واقعہ کی ایف آئی آر ساہیوال  میں درج کروائی...جبکہ سی ٹی ڈی لاہور  پولیس اسٹیشن نے مشکوک مقابلے میں جاں بحق ہونے والے ذیشان اور دیگر کے خلاف مقدمے کا اندراج کرلیا ہے۔
اگر بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے درندوں کو سزا ہی دینا مقصود تھا تو پھر مقدمے کو الجھانے کے لئے دو مقدمات کا اندراج کیوں کیا گیا؟ پنجاب حکومت کے بعض وزیروں نے جس طرح سے سی ٹی ڈی کے اس مکروہ کارنامے کا دفاع کرنے کی کوششیں کیں وہ بھی سب کے سامنے ہے' جب اس سسٹم سے جڑے ہوئے تمام طاقتور عناصر ملزمان کا دفاع کرنے اور ملزمان کو ریلیف پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہیں گے تو پھر  نہ جعلی پولیس مقابلے بند ہوں گے اور نہ بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے کے واقعات میں کمی آسکے گی... اب تو صورتحال کھل کر سامنے آگئی ہے اور یہ بات بھی کہ اس خونی آپریشن کے بعد سی ٹی ڈی نے پینترے بدل بدل کر جتنے دعوے بھی کئے وہ سب کے سب جھوٹے ثابت ہوئے۔
جعلی  مقابلے میں جاں بحق خلیل کے بھائی نے گزشتہ روز ایک نجی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''اسے اصل مجرمان کا پتہ ہے' اس کا کہنا تھا کہ خلیل فیملی پر پہلی گولی ساہیوال پاکپتن چوک کے رہائشی ایک سی ٹی ڈی اہلکارنے چلائی تھی'' سوال یہ ہے کہ جب جاں بحق فیملی کے رشتہ داروں کو پہلی گولی فائر کرنے والے ملزم تک کے نام کا پتہ ہے تو پھر حکومت اور دیگر تفتیشی ادارے اس سے لاعلم کیوں ہیں؟ عوام یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اگر بے گناہ سویلین کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارنے والوں کو سزائیں دینا ہی ''ریاست'' کی ''ترجیح'' ہوتا تو پھر رائو انوار جیسا قاتل یوں آزادی کے ساتھ کیوں گھوم پھر رہا ہوتا؟
سینئر تجزیہ کار  مظہر عباس کی نجی چینل کے ایک پروگرام میں کی جانے والی گفتگو سن کر انسان دل تھام کے رہ جاتا ہے...وہ کہتے ہیں کہ ''جعلی مقابلوں میں بندے مارنا ''ریاستی'' پالیسی کے تحت ہوتا ہے' رائو انوار ' عابد باکسر' انسپکٹر ذیشان کاظمی ٹائپ کردار دراصل ریاست کی ضرورت ہوتے ہیں'' دلیل اس کی یہ ہے کہ چار سو سے زائد مقابلوں میں ماورائے عدالت انسانوں کا قتل عام کرنے والا رائو انوار آج بھی دندناتا ہوا پھر رہا ہے' اللہ کرے کہ یہ سب باتیں غلط ہوں' انسانوں کو ماورائے عدالت مروانا... جیتے جاگتے انسانوں کو لاپتہ کر دینا کسی بھی مہذب ریاست کی کبھی بھی مجبور نہیں ہوسکتی' اور پھر ''پاکستان'' تو وہ ریاست ہے کہ جس کو ''اسلام'' کے نام پر حاصل کیا گیا تھا جس کو ایک نظریاتی ریاست کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
اگر رائو انوار جیسے سی ٹی ڈی میں گھسے ہوئے خونخوار بھی ریاستی مجبوری بن جائیں تو پھر ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ یہاں قانون کی حکمرانی قائم کی جاسکتی ہے... قانون کے رکھوالوں کو ہر قیمت پر آئین اور قانون کے تحت رہتے ہوئے ہی اپنے اختیارات استعمال کرنے چاہئیں' اسی سے قانون کی حکمرانی کا تصور غالب آسکتا ہے۔
اگر خدانخواستہ ''ریاست'' رائو انوار ٹائپ درندوں کے دفاع پر آجائے گی تو اس کے بدترین اثرات سے معاشرہ محفوظ نہیں رہ سکے گا' سی ٹی ڈی کے جن اہلکاروں نے ساہیوال میں دہشتگردی کی'  تحقیقات کو صرف ان کے خلاف  محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کو آرڈر دینے والے افسران کو بھی نمونہ عبرت بنانا  قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے لازم ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے سابق حکومتوں کے مقابلے میں  عمران خان کا رویہ کچھ بہتر ہے ورنہ پرویز مشرف کی حکومت ہو یا زرداری اور نواز شریف کی حکومتیں' اس وقت تو جعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کو قتل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی...  بلکہ فورسز  میں موجود ان کائونٹر سپیشلسٹ 'براہ راست  حکمرانوں کے منظور نظر ہوا کرتے تھے۔
میں یہ بات بار بار اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے 'شریف برادران بالخصوص میاں شہباز شریف جعلی پولیس مقابلوں میں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں پر نوازشات کی بارش کیا کرتے تھے' لیکن مقام شکر ہے کہ سانحہ ساہیوال کے فوراً بعد... عمران خان نے وزیراعظم ہونے کے باوجود کم ازکم سی ٹی ڈی کے خونخواروں کی اس دہشتگردی کا دفاع کرنے کی کوشش تو نہیں کی؟
ہاں البتہ فواد چوہدری ' راجہ بشارت' گورنر سرور وغیرہ کی بات دوسری ہے' عمران خان کے موقف کے مقابلے میں ان کے پل' پل بدلتے موقف کی ذرا برابر  بھی اہمیت ہے اور نہ کوئی حیثیت' مہذب ریاستوں میں انسانی خون کی بڑی قدروقیمت ہوا کرتی ہے اور اسلام تو وہ مذہب ہے کہ جس نے انسانی خون کو بیت اللہ سے بھی زیادہ قیمتی قرار دیا ہے۔
دہشت گرد' تخریب کار' بدمعاش' غنڈہ گرو  یہ تو معاشرے کے گھٹیا لوگ ہوتے ہیں... لیکن حکومتی فورسز کا کردار تو انسانی جان کی حرمت کو بچانے کے لئے سب سے اعلیٰ اور ارفع ہونا چاہیے 'اگر سی ٹی ڈی سمیت دیگر ریاستی ادارے انسانی جان کو ہی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے تو پھر ان میں اور دہشت گرد گروہوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟
شہریار آفریدی وزیر مملکت برائے داخلہ ہیں' انہوں نے قومی اسمبلی میں جو گفتگو کی وہ نہایت فکر انگیز ہے' وہ کہتے ہیں کہ ''آج قوم میں اضطراب ہے' قوم' آبدیدہ ہے' والدین کو یہ بات کھٹک رہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ ساہیوال واقعہ کا ہم جواب دیں گے' اس واقعہ میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا نہ دے سکے تو میں وزرات چھوڑ دوں گا... تمام سیاسی جماعتیں یہ  حلف دیں کہ جس سیاسی جماعت میں ایک بھی مسلح فرد ہو' اس کی رکنیت ختم کر دی جائے... عابد باکسر' سانحہ ماڈل ٹائون' رائو انوار سمیت تمام کیسزز فوجی عدالتوں کو بھجوائے جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا'میرا شہریار آفریدی سے سوال یہ ہے کہ رائو انوار سانحہ ماڈل ٹائون اور عابد باکسر کے کیسزز کو فوجی عدالتوں میں بھجوانا' عوام کی ذمہ داری ہے یا پھر حکمرانوں کی؟

No comments:

Post a Comment