نیو یارک والو توبہ کرو توبہ


انسانی دلوں میں دہشت بن کر رہنے والے امریکہ پر اس وقت کورونا وائرس کی وحشت طاری ہے … امریکہ نے ابو غریب جیل سے لے کر گوانتاناموبے کے قیدخانوں تک انسانیت کو رسوا کرکے دنیا کے دلوں پر اپنی دہشت و وحشت کا سکہ جمانے کی کوشش کی تھی… لیکن آج امریکہ کی عمارتوں اور سڑکوں پر معمولی سے ''کورونا'' کی دہشت و وحشت سکہ رائج الوقت بن چکی ہے … کبھی اسامہ بن لادن کے سر کی قیمت اور کبھی ملا محمد عمر کے سر کی قیمت … انسانی سروں کی کئی کئی لاکھ ڈالر قیمتیں مقرر کرنے والے امریکہ میں آج کوئی ہے کہ جو ''کورونا وائرس'' جیسے دہشت ناک جرثومے کی قیمت مقر ر کرے؟ عراق میں بیس لاکھ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے امریکہ کی ریاست نیویارک کے سینٹرل پارک میں قائم ہسپتال کی نرس ڈینئل شومل نے روتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ '' وہ اپنا دکھ کسی سے بیان بھی نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کی ساتھی نرسیں بھی اتنا ہی ذہنی دبائو کا شکار ہیں، اس نے کہا کہ وہ کورونا مریضوں کو بچانے کی ہر ممکن کوششیں کرتی ہے لیکن وہ جس کمرے میں جاتی ہے وہاں لاشیں ہوتی ہیں، اب تو یہ بھی ممکن نہیں ہوتا کہ لواحقین کو فون کرکے بتائیں کہ آپ کا مریض اب دنیا میں نہیں رہا'' نیو یارک سے ہی ایک اور  انسانی چیخ و ڈیو کلپ کی صورت میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے … اس انسانی چیخ و پکار کی طرف حضرت اقدس مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی حفظہ اللہ نے بھی مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا... کہ نیویارک سے اٹھنے والی یہ چیختی ہوئی انسانی پکار … کیا مسلم اور غیر مسلم... ساری دنیا کے حکمرانوں، سیاست دانوں اور انسانی طاقت کے مراکز کو جھنجوڑ رہی ہے … آئو توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا … آجائو مالک حقیقی کے دروازے پر عاجزی و انکساری کے ساتھ جھک جائو … امریکہ، یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک کے حکمرانوں چلے آئو … اس پیارے رب کے دروازے پر کہ جو ''انسان'' سے ستر مائوں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے، اب بھی وقت ہے انسانوں پر ظلم ڈھانے سے باز آجائو۔*
*امریکہ! تم نے انسانوں کا بہت قتل عام کرلیا، دنیا بھر میں انسانوں پر تابڑ توڑ حملے کیے، افغانستان کے ہسپتالوں، *سکولوں، مدرسوں، مسجدوں اور انسانوں سے بھرے ہوئے شادی ہالوں کو انسانوں سمیت تباہ و برباد کرنے سے بھی دریغ نہ کیا … پاکستان کی پاکباز بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ناتواں وجود پر بے پناہ مظالم *ڈھاکر ''انسانیت'' کو بھی شرمندہ کر ڈالا ، آج جبکہ امریکہ کورونا وائرس کا بری طرح شکار بن چکا ہے … وہاں مرنے والے انسانوں کی خبریں سن کر ہم خوش نہیں... بلکہ مغموم ہیں... مولانا پیر عزیز الرحمن کے لہجے میں جیسے دنیا جہاں کا درد سمٹ آیا ہو … انہوں نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہاشمی صاحب! مجھ ناتواں بوڑھے کی طرف سے لکھو … میں مسلمانوں کاایک خادم ہونے کی حیثیت سے امریکہ کے حکمران ہوں یا یورپ کے* *حکمران، بلکہ دنیا کے مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ سچے دل سے توبہ و تائب ہو جائیں، حضور نبی کریمۖ کا دامن رحمت ساتوں زمینوں سے بھی زیادہ وسیع ہے، آجائو، حضورۖ کے دامن رحمت میں … اللہ کی بغاوت اور انسانیت کی توہین سے باز آجائو، انسان کو ان کی مائوں نے آزاد جنم دیا ہے، انسانوں کو غلام بنانے کا بیانیہ ترک کر دو، قوموں کو آزاد کر دو، فلسطینیوں پر ظلم مت ڈھائو … کشمیریوں کو ان کے حق آزادی سے محروم مت رکھو، حضور نبی کریمۖ کی توہین سے باز آجائو، ختم نبوتۖ پر حملہ آور ہونے والے شیطانوں کی سرپرستی چھوڑ دو، عورتوں کو بازار کی زینت یا مارکیٹ کا اشتہار بنانے کی بجائے انہیں اپنے گھروں میں رہنے کا حق دو، مخلوط نظام تعلیم غلامانہ مائنڈ سیٹ کا حصہ ہے … خواتین کو مردوں سے علیحدہ مکمل پردے کے اندر تعلیم حاصل کرنے کا حق دو، دنیا کے حکمرانوں کے نام پیر طریقت مولانا عزیز الرحمن کے اس مختصر پیغام کے بعد بڑھتے ہیں اس انسانی چیخ و پکار کی طرف کہ جو نیویارک سے ہی اٹھی*۔
*نیو یارک، ہمارے ہاں بسنے والے لبرلز اور سیکولرز کی بھی ''جنت'' ہے، اسلامی احکامات اور مسلمانوں کو گھیرنے والے حکمرانوں کے فیصلوں پر بھی وہاں کی گہری چھاپ کا اثر لیے ہوئے ہوتی ہے، میرا نیو یارک کبھی جانا نہیں ہوا… اور نہ ہی* *وہاں جانے کا فضول شوق کبھی دل و دماغ میں آیا… میرے پیارے پاکستان کی دھول پر کئی نیویارک قرباں، ہاں البتہ ہمارے ہاں کی دانش گاہوں کے بالا خانوں سے نیویارک کی یاترا کرکے لوٹنے والا ، سکہ بند دانشور، کالم نگار اور سینئر صحافی بننے کا اعزاز ضرور پالیتا ہے۔*
*اس نیو یارک کی مرکزی سڑک پر ایک گورا چیختے ہوئے نیو یارک سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ''نیو یارک شہر تیرے گنا ہ خدا کے غضب کو دعوت دے چکے ہیں … خدا تجھ سے بہت ناراض ہے، نیو یارک! تجھے معلوم ہے کہ تمہارے بچے ضائع کر دیئے جاتے ہیں، ایک ہفتے میں چالیس بچے ضائع کئے جاتے ہیں، ان معصوم بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے، ہماری انا اور تکبرنے ہمیں برباد کیا، نیو یارک! تجھے آج خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے … خدا کہہ رہا ہے عاجزی اختیار کرو تاکہ تمہیں عزت ملے، ہر جسم اور ہر چیز کی روح اسی کے قبضے میں ہے، نیویارک خدا تجھے پکار رہا ہے، تجھے خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کی طاقت کی آواز پر لبیک کہو تاکہ تجھے عزت ملے، تمہاری ناپاک محفلیں بچوں کے خون سے آلودہ ہیں، تم ہاتھوں سے گناہ کرتے ہو اور منہ سے جھوٹ بولتے ہو، تمہاری زبانیں ہر ظلم کی تعریف کرتی ہیں، امریکہ ہم سب سے بری قوم ہیں … ہمیں توبہ کرنی چاہیے، نیو یارک! رب کے سامنے عاجزی اور توبہ کا یہی وقت ہے … توبہ اور عاجزی سے ہی عزت مل سکتی ہے، بتوں کی عبادت، سرکشی، تکبر، حب مال اور مادیت سے توبہ کرو، نیویارک ! ہم ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے، کالا، گورے اور گورا کالے سے نفرت کررہا ہے

کورونا کے باعث لاک ڈائون، سب سے زیادہ فحش مواد کس ملک میں دیکھا گیا؟

اسلام آباد دنیا بھر میں مہلک عالمی وبا کورونا وائرس کے پیشِ نظرلاک ڈاؤن جاری ہے،جس کے باعث دنیا کی نصف آبادی گھروں تک محدود ہو گئی ہے۔ایسے میں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا ایپس اور دیگر ویب سائٹس کےاستعمال میں بھی اضافہ ہواہے۔دنیا بھرکی طرح بھارت میں بھی کورونا وائرس کےباعث لاک ڈاؤن کیا گیا ہے
تاہم بھارت،اس دوران سب سے زیادہ فحش مواد دیکھنے والوں کا ملک بن گیا ہے۔فحش مواد شائع کرنےوالی ایک ویب سائٹ کےمطابق 24 مارچ کو ویب سائٹ پر بھارت سےآنےوالا ٹریفک صرف 23 فیصد تھا لیکن چند ہی دنوں بعد 27 مارچ کو ویب سائٹ پربھارت سےآنے والا ٹریفک 95 فیصد تک پہنچ گیا۔ویب سائٹ حکام نے بتایا کہ یکم اپریل کو بھی بھارت سے سائٹ پر ٹریفک کا تناسب 64 فیصد تھا۔حکام کے مطابق صرف بھارت ہی نہیں دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران فحش مواد دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مگر بھارت میں یہ اضافہ سب سے زیادہ ہوا ہے

عمران خان نئی مثال قائم کر سکتے ہیں

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا۔۔۔ کورونا وائرس زدہ ماحول میں کوئی بھی سنجیدہ حکومت اس طرح کے اقدام کی اجازت دے سکتی ہے؟
کوئٹہ میں ڈاکٹرز کا یہ مطالبہ بالکل درست تھا کہ انہیں کورونا سے بچنے کے لئے پرسنل پروٹیکشن کٹس فراہم کی جائیں' صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے ڈاکٹرز اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کی خدمت کیلئے صف اول پر موجود ہیں۔۔۔ جو ڈاکٹرز دوسرے ہم وطنوں کو کورونا وائرس سے بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں' کیا انہیں پرسنل پروٹیکشن کٹس فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔محاذ پر کھڑے سپاہی کے پاس اگر اسلحہ ہی نہیں ہوگا۔۔۔ تو وہ دشمن کا مقابلہ خاک کرے گا؟
پرسنل پروٹیکشن کٹس نہ ہونے کے سبب کوئٹہ میں کورونا وائرس سے مریضوں کو بچاتے بچاتے 15ڈاکٹر خود وائرس کا شکار بن گئے۔۔۔ جبکہ 50ڈاکٹرز کو قرنطینہ منتقل کرنا پڑا' آخر یہ سب کیا ہے؟ صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت آخر ان میں سنجیدگی کب آئے گی؟ پیر کے دن قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے حکومت کی ''کورونا'' پالیسی کے حوالے سے جو ریمارکس دئیے۔۔۔ وہ بھی چشم کشا ہیں۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ '' یہ کیسی ہیلتھ ایمرجنسی ہے تمام ہسپتال بند پڑے ہیں۔۔۔ ٹی وی چینلز پر صرف ہاتھ دھونے اور گھر رہنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔۔۔ حکومت صرف اجلاسوں میں مصروف ہے...کوئی کام نہیں ہو رہا' وزرائے اعلیٰ گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا' سب کو پیسوں کی پڑی ہے' حکومت لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہی ہے''*
*چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بتا رہے ہیں کہ صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی حکومت' آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ وزرائے اعلیٰ خود اتنے ''بہادر'' ہیں کہ گھروں میں بیٹھ کر احکامات دے رہے ہیں۔۔۔ عمران خان حکومت کے اقدامات سے چڑا ہوا مخصوص میڈیا سندھ میں مراد علی شاہ حکومت کو کورونا وائرس کے خلاف بقیہ صوبوں میں ممتاز قرار دے رہا ہے' حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں۔۔۔کہ مراد علی شاہ کی کورونا وائرس کے خلاف پھرتیوں کا زیادہ تر مرکز و محور مساجد' باجماعت نماز' جمعہ اور مولوی حضرات ہی ہیں، غالباً ''کورونا'' کے کسی رشتہ دار نے انہیں بتا دیا ہے کہ اگر مساجد میں جمعہ اور باجماعت نمازوں پر پکی' پکی پابندی لگا دی جائے تو کورونا وائرس اپنی موت آپ مر جائے گا' اس لئے ان کی حکومت تو جمعہ پڑھانے والے مولوی حضرات کو قید و بند کی مصیبتوں میں بھی ڈال رہی ہے تاکہ ''مولوی'' دوبارہ کبھی جمعہ پڑھانے کا نام ہی نہ لیں' ایسی بات نہیں ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی' حکومت سڑکیں بند کر رہی ہے' بازار بند کر رہی ہے' فیکٹریاں' کارخانے' دفاتر اور کاروبار بند کرواچکی ہے۔۔۔ اب اس سے زیادہ حکمران اور کیا کریں؟ اگر لوگ بھوکوں مر رہے ہیں تو حکومت کیا کرے؟*
*کورونا سے لڑنا ڈاکٹروں اور نرسوں کی ذمہ داری ہے' اگر وہ پرسنل پروٹیکشن کٹس کا مطالباتی جلوس نکالیں تو ان پر لاٹھیاں برسانا ۔۔۔حکومت کی ذمہ داری ہے' مجھے اس موقع پر عدل و انصاف کے شہنشاہ خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروق کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے کہ جس پہ ''انسانیت'' ہمیشہ نازاں رہے گی۔۔۔ جب مدنیة الرسولۖ میں قحط کی وباء عام ہوئی تو مراد رسولۖ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے پنیر' گھی اور دیگر مرغن غذائوں کو کھانے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ قحط کی وجہ سے رعایا بھوکی رہے اور ریاست مدینہ کا والی مرغن غذائیں کھائے۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا'* *مقام شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں' سوال یہ ہے کہ کیا انہیں بھی معلوم ہے کہ ریاست پاکستان میں کئی ہفتوں کے لاک ڈائون کی وجہ سے کتنے انسان راشن اور ادویات سے محروم ہوچکے ہیں؟*
*منگل کے دن ایک دوست نے مجھے وزیراعظم کی ایک تصویر بھیجی' جس میں عثمان بزدار بھی کھڑے ہیں ۔۔۔اور عمران خان کسی برقعہ پوش غریب خاتون کو غالباً5کلو غذائی مواد پر مشتمل کاٹن بڑے فخریہ انداز میں دے رہے ہیں۔۔۔ وزیراعظم کی اسلام آباد کی مصروفیات ہوں یا لاہور کی میل ملاقاتیں اور میٹنگز کی مصروفیات' وزیراعظم اپنے وزیروں سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں' منہ پر ماسک بھی نہیں چڑھاتے' لیکن حکومت کا سارا زور مسجد کے نمازیوں  پر ہے کہ وہ نہ باجماعت نماز میں شریک ہوں اور نہ ہی جمعتہ المبارک کی ادائیگی کے لئے مسجدوں کا رخ کریں۔* *عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بہت مرتبہ' گورنر ہائوسز' وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا...چلیں اگر ان سے وہ وعدہ پورا نہیں ہوسکا تو کوئی بات نہیں' کم از کم اب ہی انہیں چاہیے تھا کہ وہ لاہور' کراچی' پشاور' کوئٹہ کے گورنرز ہائوسز اور وزراء اعلیٰ ہائوسز  میں قرنطینہ سینٹر قائم کرنے کا اعلان کر دیتے۔ '' کورونا'' سے بڑی مصیبت اور  کیا ہوسکتی ہے؟ اگر اس موقع پر وزیراعظم ہائوس کے ایک حصے میں بھی قرنطینہ سنٹر قائم ہوسکتا تھا'عمران خان گزشتہ 35,40 سالوں سے عوام سے ہی چندہ مانگتے چلے آرہے ہیں۔۔۔ اب اگر وہ حکومت میں ہیں تو انہیں چاہیے کہ یہ کئی کئی ایکڑ پر پھیلی عمارتیں' بنگلے اور محلات کو بھی عوامی مصرف میں لانے کی اک نئی مثال قائم کر دیں۔*

وبائی صورتحال پرامت مسلمہ کے نام اہم پیغام



شیخ الحدیث حضرت مولاناڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب عالم اسلام میں... ممتاز علمی اور روحانی مقام رکھتے ہیں ...آپ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان وامیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی ذمہ داریوں پر فا ئز ہونے کے ساتھ ساتھ... پاکستان اور عالم اسلام کی مقبول ترین جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوں کراچی کے مھتمم بھی ہیں...موجودہ وبائی صورت حال کےتناظر میں آپ نے*
*امت مسلمہ کے نام جو پیغام دیا...وہ ممتاز دانشور عالم دین مولانا محمد احمد حافط کی معرفت مجھ تک پہنچا...یہ خاکسار سعادت سجھہ کر اسے اپنے کالم کی زینت اس دعا کے ساتھ بنا رہا ہے...کہ اللہ ہم سب کو ان قیمتی باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماے امین...مولانا عبدالرزاق اسکندر لکھتے ہیں کہ*


*!…کروناوائرس کے عالم گیرپھیلائو کے حوالے سے جو تشویشناک صورت حال سامنے آئی ہے اور اس تشویش میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جارہاہے،اس عالمگیرموذی مرض میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ اونچے طبقے کے لوگ ؛حکمران بھی مبتلاہورہے ہیں۔ اس وقت ہرطرف کروناوائرس موضوع بناہوا ہے ،کوئی اس کی تباہ کاریاں بتا رہاہے تو کوئی اس کے اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر بتا رہاہے،یہ سب اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے لیکن یہ تشخیص مادی ہے،اور اس سے حفاظت کے لیے بھی زیادہ تر مادی احتیاط پر تکیہ کیا جارہا ہے۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم قدرتی آفات ،وَبائی اَمراض اور پریشان کن حالات سے متعلق قرآنی ہدایات اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھی سامنے رکھیں، ان پرمظبوطی سے عمل پیراہوں۔موت وحیات ،بیماری اور مصیبت ،جزا وسزا ،اور آخرت کے متعلق اپناعقیدہ درست رکھیں،اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور اعتماد کریں ۔اس سلسلے میں بطوروَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْریٰ تَنْفَعُ الْمُئْومِنِیْن… عوام وخواص سے میری چند گزارشات ہیں،ان گذارشات کا سب سے پہلے میںخود مخاطب ہوں پھرمیرے تمام مسلمان بھائی مخاطب ہیں:*
*۱…تمام مسلمان انفرادی اور اجتماعی فرائض کی ادائیگی کا بھرپور اہتمام کریں،جوفرائض انفرادی نوعیت کے ہیں انہیں انفراداً اَدا کریںاور جو اجتماعی نوعیت کے ہیں انہیں اجتماعی طورپرادا کرنے کا التزام کریں۔بالخصوص نمازوں کا بھرپور اہتمام کریں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پریشان کن حالات میںنمازوں کا خاص اہتمام فرمایاکرتے تھے۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُواسْتَعِیْنُوْا بِاالصَّبْرِوَالصَّلوٰۃ…یعنی’’ اے ایمان والو! صبر اور صلوٰۃ سے مدد لو‘‘…یہ موقع ہے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے اور زاری وعاجزی کرنے کا،سو اللہ تعالیٰ کے غضب کو نمازوں کے اہتمام کے ذریعے ٹالنے کی کوشش کرو۔*
*۲…قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جوروحانی وجسمانی ہرقسم کی بیماریوں کے لیے شفا ہے،ہرمسلمان جتنا ہوسکتا ہے موجودہ بیماریوں سے شفا اور آئندہ بیماریوں سے حفاظت کی نیت سے تلاوت کلام اللہ کا اہتمام کرے۔*
*۳…بعض اوقات بڑی آزمائشیں گناہوں پر تنبیہ کے لیے ہوتی ہیں،ایسے موقع پر تمام مسلمان کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کرتے رہیں۔اپنے صغیرہ وکبیرہ گناہوں کے استحضار،فواحش ومنکرات سے بچنے کے عزم کے ساتھ سچی توبہ کا التزام کریں۔دعائوں کا خاص اہتمام کریں، بلکہ مساجد اور مسلمانوں کے اجتماعات میں اس سے حفاظت کے لیے دعائیں کریں ،اور دفع بلا ء کے لیے مناسب انداز میں دعائیہ اجتماعات بھی منعقد کریں۔ ہرمسلمان بھائی خصوصیت کے ساتھ ان اعمال کا اہتمام کرے:*
*٭… آیت کریمہ لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن کا اہتمام کے ساتھ ورد کریں۔*
*٭…صبح وشام کی مسنون دعائوں کااہتمام کریں۔*
*٭…درودشریف کی کثرت کریں،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت پر جوعظیم احسانات ہیں؛ان کااستحضار کرتے ہوئے درودشریف کی کثرت کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اپنی اور تمام مسلمانوں بھائیوںکی حفاظت کے لیے دعائیں مانگیں۔*
*٭…طہارت اور پاکیزگی اختیارکریں ،باوضورہنے کا اہتمام کریں۔*
*٭…اس کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت صدقہ وخیرات ،غرباء اورمساکین کی خبرگیری کا اہتمام کریں۔*
*ان دنوں ملک بھر میں احتیاط کے طور پر لوگوں کوکاروبار بند کرکے گھروں میں بند ہوہوکر رہنے کا کہا جارہاہے ،کاروباری مراکز بند ہیں،اس فرصت سے فائدہ اٹھائیں،بجائے فضول کاموں میں وقت صرف کرنے ،موبائل پریا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے گھروں میں رہتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت ،استغفار،دعاو مناجات کاخوب خوب اہتمام کریں۔ گھروں میں تعلیمی حلقے قائم کریں ،اپنے بچوں اور محلے کے بچوں کو دین کی بنیادی اور ضروری باتیں سکھادیں۔*
*۴…مسلمان تجار اور کاروباری حضرات سود ،سٹہ ،ذخیرہ اندوزی اور ان جیسے دیگر حرام ذرائع تجارت سے توبہ کریں، اشیاء ضروریہ اورادویہ کو مہنگے داموں فروخت نہ کریں،ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو مزید دعوت دینا ہے۔اپنے غریب ومسکین بھائیوں کا خیال کریں،یادرکھیں اس مشکل گھڑی میں جبکہ ہرشخص ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کا محتاج ہے ؛محض اپنے مفاد کو مقدم رکھنا بہت براکام ہے۔*
*۵…حکام وقت سے میری گذارش ہے کہ وہ عوام کوہمت دلائیں،احتیاطی تدابیر ضرور بتائیں مگر جبرواکراہ کے ذریعے *افراتفری پھیلانے سے گریز کریں۔اس وقت پورا ملک جس صورت حال سے دوچار ہے؛روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرنے والے غریب طبقے کے افرادکے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اسلامی ریاست کے حکام کا فرض ہے کہ اس موقع پر وہ خاص طور پر اپنی رعایاکی پوری خبر گیری کریں ۔*
*مجھے حکام وقت سے یہ بھی کہناہے کہ اگرچہ دینی مدارس کے طلبہ کورخصت دے کر گھروں کو بھیج دیا گیاہے،لیکن وہاں ہونے والے دینی اعمال کو جاری رہناچاہیے ،مسجدوں کو بند کرنے یا جمعہ موقوف کرنے کی سوچ نامناسب ہے،اگر ایسا کیاگیا تویہ اللہ تعالیٰ کی مزید ناراضی کا سبب ہوگا ۔ان شاء اللہ دینی مدارس اور روحانی مراکز کی آبادی اور ان میں دعاواستغفار کے اہتمام سے ہمیں بیماریوں اور پریشانیوں سے نجات ملے گی اورحفاظت نصیب ہوگی۔*
*میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان بھائیوں کو ہرطرح کی آفات اور بلائوں سے محفوظ رکھے ،اور ایمان پرخاتمہ نصیب فرمائے،*