عمران خان نئی مثال قائم کر سکتے ہیں

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس نے ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا۔۔۔ کورونا وائرس زدہ ماحول میں کوئی بھی سنجیدہ حکومت اس طرح کے اقدام کی اجازت دے سکتی ہے؟
کوئٹہ میں ڈاکٹرز کا یہ مطالبہ بالکل درست تھا کہ انہیں کورونا سے بچنے کے لئے پرسنل پروٹیکشن کٹس فراہم کی جائیں' صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے ڈاکٹرز اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کی خدمت کیلئے صف اول پر موجود ہیں۔۔۔ جو ڈاکٹرز دوسرے ہم وطنوں کو کورونا وائرس سے بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں' کیا انہیں پرسنل پروٹیکشن کٹس فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔محاذ پر کھڑے سپاہی کے پاس اگر اسلحہ ہی نہیں ہوگا۔۔۔ تو وہ دشمن کا مقابلہ خاک کرے گا؟
پرسنل پروٹیکشن کٹس نہ ہونے کے سبب کوئٹہ میں کورونا وائرس سے مریضوں کو بچاتے بچاتے 15ڈاکٹر خود وائرس کا شکار بن گئے۔۔۔ جبکہ 50ڈاکٹرز کو قرنطینہ منتقل کرنا پڑا' آخر یہ سب کیا ہے؟ صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت آخر ان میں سنجیدگی کب آئے گی؟ پیر کے دن قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے حکومت کی ''کورونا'' پالیسی کے حوالے سے جو ریمارکس دئیے۔۔۔ وہ بھی چشم کشا ہیں۔۔۔ چیف جسٹس نے کہا کہ '' یہ کیسی ہیلتھ ایمرجنسی ہے تمام ہسپتال بند پڑے ہیں۔۔۔ ٹی وی چینلز پر صرف ہاتھ دھونے اور گھر رہنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔۔۔ حکومت صرف اجلاسوں میں مصروف ہے...کوئی کام نہیں ہو رہا' وزرائے اعلیٰ گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا' سب کو پیسوں کی پڑی ہے' حکومت لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہی ہے''*
*چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بتا رہے ہیں کہ صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی حکومت' آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ وزرائے اعلیٰ خود اتنے ''بہادر'' ہیں کہ گھروں میں بیٹھ کر احکامات دے رہے ہیں۔۔۔ عمران خان حکومت کے اقدامات سے چڑا ہوا مخصوص میڈیا سندھ میں مراد علی شاہ حکومت کو کورونا وائرس کے خلاف بقیہ صوبوں میں ممتاز قرار دے رہا ہے' حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں۔۔۔کہ مراد علی شاہ کی کورونا وائرس کے خلاف پھرتیوں کا زیادہ تر مرکز و محور مساجد' باجماعت نماز' جمعہ اور مولوی حضرات ہی ہیں، غالباً ''کورونا'' کے کسی رشتہ دار نے انہیں بتا دیا ہے کہ اگر مساجد میں جمعہ اور باجماعت نمازوں پر پکی' پکی پابندی لگا دی جائے تو کورونا وائرس اپنی موت آپ مر جائے گا' اس لئے ان کی حکومت تو جمعہ پڑھانے والے مولوی حضرات کو قید و بند کی مصیبتوں میں بھی ڈال رہی ہے تاکہ ''مولوی'' دوبارہ کبھی جمعہ پڑھانے کا نام ہی نہ لیں' ایسی بات نہیں ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی' حکومت سڑکیں بند کر رہی ہے' بازار بند کر رہی ہے' فیکٹریاں' کارخانے' دفاتر اور کاروبار بند کرواچکی ہے۔۔۔ اب اس سے زیادہ حکمران اور کیا کریں؟ اگر لوگ بھوکوں مر رہے ہیں تو حکومت کیا کرے؟*
*کورونا سے لڑنا ڈاکٹروں اور نرسوں کی ذمہ داری ہے' اگر وہ پرسنل پروٹیکشن کٹس کا مطالباتی جلوس نکالیں تو ان پر لاٹھیاں برسانا ۔۔۔حکومت کی ذمہ داری ہے' مجھے اس موقع پر عدل و انصاف کے شہنشاہ خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروق کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے کہ جس پہ ''انسانیت'' ہمیشہ نازاں رہے گی۔۔۔ جب مدنیة الرسولۖ میں قحط کی وباء عام ہوئی تو مراد رسولۖ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے پنیر' گھی اور دیگر مرغن غذائوں کو کھانے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ قحط کی وجہ سے رعایا بھوکی رہے اور ریاست مدینہ کا والی مرغن غذائیں کھائے۔۔۔ یہ نہیں ہوسکتا'* *مقام شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں' سوال یہ ہے کہ کیا انہیں بھی معلوم ہے کہ ریاست پاکستان میں کئی ہفتوں کے لاک ڈائون کی وجہ سے کتنے انسان راشن اور ادویات سے محروم ہوچکے ہیں؟*
*منگل کے دن ایک دوست نے مجھے وزیراعظم کی ایک تصویر بھیجی' جس میں عثمان بزدار بھی کھڑے ہیں ۔۔۔اور عمران خان کسی برقعہ پوش غریب خاتون کو غالباً5کلو غذائی مواد پر مشتمل کاٹن بڑے فخریہ انداز میں دے رہے ہیں۔۔۔ وزیراعظم کی اسلام آباد کی مصروفیات ہوں یا لاہور کی میل ملاقاتیں اور میٹنگز کی مصروفیات' وزیراعظم اپنے وزیروں سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں' منہ پر ماسک بھی نہیں چڑھاتے' لیکن حکومت کا سارا زور مسجد کے نمازیوں  پر ہے کہ وہ نہ باجماعت نماز میں شریک ہوں اور نہ ہی جمعتہ المبارک کی ادائیگی کے لئے مسجدوں کا رخ کریں۔* *عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بہت مرتبہ' گورنر ہائوسز' وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا...چلیں اگر ان سے وہ وعدہ پورا نہیں ہوسکا تو کوئی بات نہیں' کم از کم اب ہی انہیں چاہیے تھا کہ وہ لاہور' کراچی' پشاور' کوئٹہ کے گورنرز ہائوسز اور وزراء اعلیٰ ہائوسز  میں قرنطینہ سینٹر قائم کرنے کا اعلان کر دیتے۔ '' کورونا'' سے بڑی مصیبت اور  کیا ہوسکتی ہے؟ اگر اس موقع پر وزیراعظم ہائوس کے ایک حصے میں بھی قرنطینہ سنٹر قائم ہوسکتا تھا'عمران خان گزشتہ 35,40 سالوں سے عوام سے ہی چندہ مانگتے چلے آرہے ہیں۔۔۔ اب اگر وہ حکومت میں ہیں تو انہیں چاہیے کہ یہ کئی کئی ایکڑ پر پھیلی عمارتیں' بنگلے اور محلات کو بھی عوامی مصرف میں لانے کی اک نئی مثال قائم کر دیں۔*

No comments:

Post a Comment