ازمائش اور عذاب



*ایک طرف وبائوں کا عذاب ہے تو دوسری طرف لادینیت کا فتنہ ہے، ہمارے ہاں بعض کالم نگار بھی ایسے ہیں کہ توبہ ہی بھلی، وہ دین بھی سمجھناچاہتے ہیں تو انٹرنیٹ اور لائبریریوں میں رکھی ہوئی مستشرقین اور مغربی کتب سے… کبھی وہ اپنے کالموں میں غریبوں کی غربت کا حوالہ دے کر حج بیت اللہ کی حرمت کو مجروح کرتے ہیں... تو کبھی عید الاضحی کے موقع پر قربانی جیسے عظیم عمل کا مذاق اڑاتے ہیں۔*
*اپنی اوقات ان کی محض اتنی ہے کہ ایک پراپرٹی ڈان کا دیا ہوا راتب ان کی ترقی کا زینہ بنتا ہے … موصوف نے گزشتہ دنوں امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق کے زمانے میں پھیلنے والی طاعون کی وباء میں عظیم جرنیل اسلام سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح اور دوسرے کئی صحابہ کرام کی شہادتوں کے واقعہ کو بنیاد بناکر کرونا وائرس سمیت دیگر وبائوں کو بھی عذاب ماننے سے انکار کر دیا ہے، انہیں خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور مساجد میں جاکر توبہ کرنے کی علماء کرام کی باتوں اور ہدایات پر بھی اعتراض ہے۔*
*افسوس ان مسلمان بھائیوں پر کہ جو ''دین'' کو بھی محض ''سبجیکٹ'' سمجھ کر پڑھتے ہیں … جس جس نے دین اسلام کو انٹرنیٹ کے معیار پر پڑھنے کی کوشش کی، آسمانی، الہامی احکامات اور نبی اعظمۖ پر اترنے والی وحی کو عقل کے پیمانے پر ماپنے کی کوشش کی... اس نے غلام احمد پرویز کی طرح ٹھوکر کھائی یا مرزا قادیانی یا پھر جاوید غامدی کی طرح ٹھوکر کھاکر منہ کے بل جاگرا، اس خاکسار نے اوپر جن تین ناموں کی نشاندہی کی ہے … یہ تینوں نام ایک طرف اور امت مسلمہ دوسری طرف … لیکن انہیں پھر بھی اپنے آپ کو زبردستی امت مسلمہ کا ''ماما، چاچا'' بننے کا شوق چرایا رہا، ان میں آخر الذکر تو وہ ہیں کہ جو اسلامی نظریاتی مملکت کو اپنی مرضی سے چھوڑ چھاڑ کر اپنی جنت امریکہ جابسے … اور دجالی میڈیا کے کندھوں پر بھرپور سواری کے باوجود* *مسلمانوں یا دنیا بھر کے جمہور علماء کے دلوں میں ذرا برابر بھی جگہ نہ بناسکے، بدقسمتی ہے، بدقسمتی... اللہ ہم سب اور پوری انسانیت کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین*
*طاعون ہو، بارش کا رکنا، بدترین سیلاب، زلزلے یا کرونا وائرس عذاب ہے … انعام ہے یا ثواب؟ یہ جاننے کیلئے ہمیں کسی انٹرنیٹ مارکہ کالم نگار کے کالم کو پڑھنے کی بجائے... اس کائنات کے خالق و مالک اور اس کے محبوب محمد کریمۖ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہۖ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں-1 جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں-2 اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط، مصائب اور بادشاہوں (حکمرانوں) کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے-3 اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰة نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے-4 اور جو قوم اللہ اور اس کے رسولۖ کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے … جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔-5 اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام) اختیار کرلیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور باہمی اختلافات میں مبتلافرما دیتے ہیں،(سنن ابن ماجہ)حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریمۖ نے فرمایا … جب محصولات کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور زکوٰة کو تاوان سمجھا جانے لگے گا ، غیر دینی کاموں کے لئے دین کا علم حاصل کیا جائے گا، مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرے گا اور اپنے دوست کو قریب اور اپنے باپ کو دور کرے گا، مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، قبیلے کا بدکار شخص ان کا سردار بن جائے گا اور ذلیل آدمی قوم کا لیڈر حکمران بن جائے گا اور آدمی کی عزت محض اس کے شر سے بچنے کے لئے کی جائے گی، گانے والی عورتیں اورگانے بجانے کا سامان عام ہو جائے گا، شرابیں پی جانے لگیں گی... اور بعد والے لوگ پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کرنے لگیں گے… اس وقت سرخ آندھیاں، زمین میں دھنس جانے ، شکلیں بگڑنے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے لگاتار عذابوں کا انتظار کرو، یہ نشانیاں یکے بعد دیگرے یوں ظاہر ہوں گی... جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ (رواہ الترمذی و الطبرانی)*
*اللہ پاک قرآن مقدس کی سورہ الروم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ (ترجمہ) ''پھیل پڑی ہے خرابی جنگل اور دریا میں لوگوں کے ہاتھ کی کمائی سے ، چکھانا چاہیے ان کو کچھ مزہ ان کے کام کا، تاکہ وہ لوٹ آئیں''۔*
*قرآن مقدس کی سورہ الشوریٰ میں ارشاد خداوندی ہے کہ (ترجمہ) '' اور جو پڑے تم پر کوئی سختی سو وہ بدلہ ہے، اس کا جو کمایا ہے تمہارے ہاتھوں نے ، اور وہ معاف کرتاہے بہت سے گناہ اور تم تھکا دینے والے نہیں، بھاگ کر زمین میں، اور کوئی نہیں اللہ کے سوا کام بنانے والا اور نہ کوئی مددگار۔''*
*اگر کسی کالم نگار کو کرونا وائرس کی وبا، عذاب نہیں ثواب لگتی ہے تو اس کی مرضی... لیکن جسے یہ عذاب لگتی ہے ان مسلمانوں سے اگر علماء کرام توبہ و استغفار، صدقہ و خیرات کرنے اور پاکیزگی اختیار کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں... تو اس میں اعتراض کی کیا گنجائش؟ جو ملک ریاض کے بخشے ہوئے گھر کی رہائش پر اترائے پھرتے ہیں، وہ بیت اللہ، مسجد نبویۖ اور مساجد میں جاکر توبہ تائب ہونے اور اللہ کو راضی کرنے پر طنز کرتے ہیں، اللہ رحم، اللہ رحم… وبائیں تو آتی جاتی رہیں گی، خدا ئے ذوالجلال ہم سب کو ''فکری'' گمراہی، بدعقیدگی اور مغرب پرستی کی موذی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھے، جو ''عذاب '' اور ''آزمائش'' بخشیش میں ملے بنگلے اور مساجد میں فرق نہ جان سکے، مسلمانو! تم اس کی اصلیت جان کر جیئو۔*

No comments:

Post a Comment