ردالفحاشی کے بے رحمانہ آپریشن کی ضرورت


وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ''معاشرے میں فحاشی بڑھے تو سیکس کرائم بڑھتا ہے... جس سے خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے' انگلینڈ میں فحاشی بڑھنے سے اس وقت طلاق کی شرح 70فیصد تک پہنچ چکی ہے۔''
سوال تو بنتا ہے کہ جب وزیراعظم بڑھتی ہوئی فحاشی کی تباہ کاریوں سے واقف ہیں تو پھر انہوں نے اپنی دو سالہ حکومت میں ''فحاشی'' کے سیلاب کے سامنے بندھ باندھنے کے لئے کیا اقدامات کئے؟
عریانی' فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے عناصر خواہ میڈیا انڈسٹری میں ہوں' فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں ہوں... یا حکومت' سیاست دانوں اور عوام میں... ان مکروہ عناصر کو معاشرے میں فحاشی پھیلانے سے قانون کی طاقت سے کیوں نہ روکا؟
میں یہ نہیں کہتا کہ ''فحاشی'' صرف عمران خان کے دور حکومت میں بڑھی... عالمی صیہونی طاقتوں کی پاکستان میں فحاشی کے کلچر کو عام کرنے کی خواہش تو روز اول سے ہی تھی... لیکن ان کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا رسواکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے' اپنے تاریک دور حکومت میں... وہ جو ''روشن خیالی'' کا پرویزی نعرہ تھا۔.. اسی کی کوکھ سے الیکٹرانک چینلز کے عذاب نے جنم لیا... ''عذاب'' میں اس لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ پاکستان کے عوام کی اکثریت انہیں نہ صرف ''عذاب'' سمجھتی ہے... بلکہ دجالی چینلز بھی قرار دیتی ہے... پاکستانی قوم میں فحاشی' عریانی اور بے حیائی کو عام کرنے کے صیہونی منصوبے میں ہتھیار کا کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے حیاء' غیرت' عزت' پردے' نقاب' عورت کے باپردہ لباس کو نشانہ بنانا شروع کیا... شیطانی صفت کے حامل بھائی کو بہن کے ساتھ سٹوڈیو میں بٹھا کر ان کے آپسی ذلت بھرے تعلق کے حوالے سے انٹرویوز نشر کئے گئے۔۔۔ یہ وہ آغاز تھا کہ جس کو پاکستان کے خاندانی سسٹم کی تباہی کی بنیاد کہا جاسکتا ہے... الیکٹرانک چینلز نے پیسہ کمانے کی خاطر ایسے ایسے اشتہار چلائے کہ جس نے بیہودگی کی ساری حدیں پار کرلیں' جب یہ سارا فساد شروع ہو رہا تھا... روزنامہ اوصاف واحد وہ قومی اخبار تھا کہ۔۔۔ جس نے مذہبی جماعتوں' منبر و محراب کے وارثوں اور قوم کے سنجیدہ فکر حلقوں کو بار بار اس طرف متوجہ کرنے کی کوششیں کیں' باقی اخبارات میں بھی اکا' دکا کالم نگار... ایمانی جذبات کے تحت فحاشی اور عریانی کے خلاف اپنے کالموں میں آواز اٹھاتے رہے... اللہ ان سب کو بھی جزاء خیر عطا فرمائے۔ (آمین)
مگر روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان نے تو پورے ادارے کو فحاشی و عریانی پھیلانے والے عناصر کو بے نقاب کرنے۔۔۔ اور قوم کے بڑوں کو بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کے خلاف متوجہ کرنے کے لئے وقف کر ڈالا۔
آج جو معصوم بچوں' بچیوں اور راہ چلتی خواتین کے ساتھ درندگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے... یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا... بلکہ اس کے پچھلے رسواکن ڈکٹیٹر کا متعارف کروایا ہوا... روشن خیالی کا غلیظ منصوبہ اور اس منصوبے کی کوکھ سے برآمد ہونے والے انڈے' بچے بھی ہیں' دجالی چینلز کے مالکان نے پیسہ کمانے کی ہوس میں اندھے ہو کر ''فحاشی'' کو پاکستانی معاشرے میں جس طرح پروان چڑھایا... اس نے نوجوان نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کر ڈالا' پھر موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے تو بالکل ہی لٹیا ڈبو کے رکھ دی۔
ایک خطرناک سازش کے تحت پاکستان کی نوجوان نسل کو دین اسلام سے دور کرنے کی کوششوں کو عروج بخشنے میں... غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے حکمرانوں اور میڈیا نے بھی خوب کردار ادا کیا' آج جو اینکرز' اینکرنیاں اور کالم نگار' موٹر وے سانحہ کو مرچ' مصالحے لگا کر انصاف' انصاف کی دہائیاں دے رہے ہیں... ان کے ماضی کے پروگرام اور کالم اٹھا لیجئے کہ انہوں نے روشن خیالی کے بے حیاء منصوبے کو پروان چڑھانے میں۔۔۔ کس کس طرح کردار ادا کرنے کی کوشش کی تھی؟
گزشتہ روز کراچی سے تعلق رکھنے والے عامر لیاقت نام کا ایم این اے قومی اسمبلی کے فلور پر اچھل' اچھل کر پھٹہ توڑ تقریر فرما رہا تھا... کوئی اس سے پوچھے کہ رسواکن ڈکٹیٹر کے سیاہ دور میں روشن خیالی کے صیہونی منصوبے کو پروان چڑھانے میں۔۔۔ موصوف کا کیا کردار رہا؟ اور کیا یہ وہی عامر لیاقت نہیں ہے کہ ''امن'' کی آشا اینڈ کمپنی کے چینل میں اینکری کے دوران... جس نے اپنے پروگراموں میں بھائی' بہن کے مقدس رشتوں تک کو نشانہ بنانے سے گریز نہ کیا' نہیں صاحب نہیں' دھوکا مت دیجئے' اگر آپ واقعی توبہ' تائب ہو کر اپنے آپ کو بدل چکے ہیں... تو قوم سے معافی تو مانگیئے... آج پاکستانی قوم جن درد ناک حالات کا شکار بنی ہوئی ہے... معاشرے کو اس مقام تک پہنچانے میں جس' جس کا مکروہ کردار ہے... میرا دل چاہتا ہے کہ میں ان مکروہ کرداروں کے حوالے سے۔۔۔ اپنے قلم کو تیز دار خنجر اور تلوار میں تبدیل کردوں۔
کوئی بتا سکتا ہے کہ فحش گانے ایجاد کرنے' گانا' گانے اور اسلامی پاکستان میں مسلمان بچوں میں گانے اور ڈانس کے مقابلوں کی۔۔ بنیاد کس چینل نے رکھی؟ گوئیوں' ڈانسروں اور فلمی اداکارائوں کو ہیرو بنانے والے کون سے مکروہ چہرے ہیں؟ یہ جو ہر ٹی وی چینل پر سالہا سال سے مارننگ شو کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے... یہ سب کیا ہے؟ ان ''مارننگ شوز'' سے کیا پاکستان کا خاندانی سسٹم مضبوط ہو رہا ہے یا پھر کمزور؟
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہمارے حکمرانوں' لبرل سیاسی جماعتوں' سیکولر میڈیا کے پردھانوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے دین اسلام کی محبت' غیرت و حیاء کو جو ملک سے نکالنے کی کوششیں شروع کر رکھی تھیں... یہ اسی کے آفٹر شاکس ہیں کہ جو قوم کے معصوم بچوں' بچیوں اور خواتین کو درندگی کی شکل میں بھگتنا پڑ رہے ہیں' ہمارے حکمرانوں میں کوئی پاکستان کو جاپان بنانا چاہتا تھا... کوئی پیرس' کوئی امریکہ اور کوئی لندن' ہمارے ''دانش گرد'' قوم کے بچوں اور بچیو ں کو مادر پدر آزاد رکھنا چاہتے تھے۔
ہمارا میڈیا معاشرے کی ''گھٹن'' ''مغربی ہوائوں'' سے دور کرنا چاہتا تھا... ہمارے بعض اینکر نما لگڑ بگڑ' نئی نوجوان نسل کو مغربی نسل کی طرح تیز طراز دیکھنے کے خواہشمند تھے... جماعت اسلامی کے سابق مرحوم امیر قاضی حسین احمد نور اللہ مرقدہ بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے... لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت قاضی حسین احمد مرحوم کی زندگی میں فحاشی اور عریانی کی تعریف کرنے سے ہی قاصر رہی' بعد میں ان کی رٹ کا کیا بنا میرے علم میں نہیں۔
جب وزیراعظم عمران خان جانتے ہیں۔۔۔ کہ معاشرے میں فحاشی بڑھے تو سیکس کرائم بڑھتا ہے' جس سے خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے... تو پھر ابھی تک انہوں نے فحاشی پھیلانے والے اداروں اور گروہوں پر آہنی ہاتھ کیوں نہیں ڈالا' فحاشی کو پروان چڑھانے والے مکروہ کرداروں۔۔۔ کو چوکوں اور چوراہوں پر کوڑے مارنے چاہئیں' کیا عمران خان اس بات کے منتظر ہیں کہ انگلینڈ کی طرح بڑھتی ہوئی فحاشی کی وجہ سے پاکستان میں بھی طلاق کی شرح 70فیصد ہو جائے؟

No comments:

Post a Comment