طیارہ حادثہ آنکھوں دیکھا حال البار کے قلم سے

نمازِ جمعہ پڑھ کر گھر آ کر آرام کر رہا تھا کہ اچانک ابو نے بتایا کہ جہاز قریب ہی گرا ہے کوئی...
مجھے سمجھ نہیں آئی اور فوراً حادثے کی جگہ کا تعین کرنے کے لئے گھر کی چھت پر بھاگا...
دور ہی دھواں اٹھتا دیکھا اور جگہ کا اندازہ لگا کر فوری طور اس طرف روانہ ہو گیا...
جائے حادثہ پر پہنچا تو ابھی ملیر کینٹ کی چیک پوسٹ نمبر 2 اور 2 سے پاک فوج کی گاڑیاں نکل کر علاقے کو کور کرنے میں مصروف تھیں اور ہر طرف وہی وردی نظر آرہی تھی جس کو صبح شام یار لوگ گالیاں نکالتے ہیں... خیر میں تیزی سے دوڑتا ہوا حادثے کے مقام کی طرف جانے لگا اور کچھ ہی لمحوں میں میرے سامنے اس جہاز کا ملبہ تھا جو کچھ وقت پہلے ہی لاہور سے اڑان بھر کر کراچی پہنچا تھا... یقین جانیں دل چھلنی ہوگیا اس جہاز کو بصورتِ ملبہ دیکھ کر کے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر اس جہاز کی منزل اس کے سامنے تھی مگر کون جانتا تھا کہ منزل سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر انکی آخری منزل انکی منتظر ہے... اللہ اللہ
میرے سامنے آگ ہی آگ تھی.. فوج کے جوان فوری طور پر علاقے کو عام عوام سے خالی کروا کر مزید کسی قسم کے جانی نقصان سے بچانے میں مصروف تھے.. میں بھی رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام میں مصروف ہو گیا.... مگر تمام تر کاروائیاں کرتے ہوئے بھی میری نظر ہر طرف تھی اور ہر طرف موجود افراد و اہلکاروں کا تجزیہ کر رہا تھا...
اور یقین کیجئے جو جو کچھ میں نے دیکھا حادثے کا احوال تو میں قطعاً الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ جو جو کچھ دیکھا اٹھایا وہ وہیں اسی ملبے پر یادداشت سے مٹا کر آیا ہوں تا کہ آئندہ کبھی یادداشت میں ایسا کوئی اور واقعہ نہ رونما ہو سکے
مگر جو جو رویے اور جو جو حرکات و سکنات میں وہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی دیکھ رہا تھا ان میں سے چند آپ کے سامنے ضرور بیان کروں گا...

سب سے پہلے تو اہلِ علاقہ کا ذکر کرنا میں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ ہر طرف میں دیکھتا تھا کہ ہمارے فوجی جوان اور دیگر رضاکار دھویں کے باعث گھٹن اور روزے کے مارے نڈھال ہونے لگتے تھے تو فوراً سے ہمیں اہلِ علاقہ میں سے کوئی نہ کوئی فرشتہ نما اپنی جانب دوڑ کر آتا نظر آتا تھا جو ہمارے سروں پر ٹھنڈا پانی ڈالتا ہمیں ٹھنڈے پانی سے منہ دھلا کر تازہ دم کرتا اور پھر سے ہم ریسکیو کرنے میں لگ جاتے... واللہ اس وقت وہ لوگ فرشتے ہی لگتے تھے...
علاقے کے 15 16 گھر متاثر ہوئے تھے مگر 5 6 تو مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے... کئی گاڑیاں کئی موٹرسائیکل جل کر راکھ ہو چکی تھیں...
مگر میں نے دیکھا وہ شخص جس کا اپنا گھر بھی حادثے میں جزوی طور پر تباہ ہوا تھا
وہ اپنے گھر کی پرواہ چھوڑ کر ہمارے ساتھ مسافروں میں سے زندہ بچنے والوں کو نکالنے میں مصروف تھا... یقین جانیے شاید اتنا حوصلہ بذات خود میں بھی نہ دکھا سکتا ہوتا جتنا حوصلہ اللہ نے اس انسان کو عطاء فرمایا تھا...

ہم نے جلد سے جلد ان لوگوں کو انکے گھروں سے باہر نکالا جن کے گھر آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے اور اسی دوران فوج، رینجرز اور سندھ پولیس مکمل طور پر علاقے کا کنٹرول سنبھال چکی تھی...

مگر..... مگر پھر اچانک ہی جہاں فائر بریگیڈ کے پائپ بچھائے جانے تھے وہیں پر ہمیں لمبے لمبے تار بچھتے ہوئے نظر آنے لگے اور یکا یک ایک ایسی خود غرض، بے حس و نا عاقبت اندیش قسم کی مخلوق ہر طرف پھیلتی دکھائی دینے لگی جس کو یہاں کے خستہ حال لوگوں، زخمیوں اور لاشوں کی پرواہ نہیں تھی بلکہ ان کو تو فکر تھی صرف اور صرف اپنے ایک "شاٹ" کی... جی جناب.. بس ایک شاٹ لینے دیں ہمیں ملبے کے سامنے سے.. یعنی لوگوں کی جان بچانے کے بجائے ہم ان کو ایک شاٹ لینے دیں... وہ مخلوق کوئی اور نہیں بلکہ وہی تھی جس کو ہم میڈیا کے نام سے جانتے ہیں...
صحافیوں کو بس ایک شاٹ درکار تھا پھر چاہے اس شاٹ کی وجہ سے ریسکیو آپریشن متاثر ہو... رضاکاروں کو پریشانی ہو... یہاں تک کہ کسی زخمی کی چیخ و پکار موت کی ہچکی میں ہی کیوں نہ تبدیل ہو جائے... کیا فرق پڑتا ہے... بس ایک شاٹ چاہیے...
یقین جانیے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ ایک "چپڑا کتا" فوج کے جوانوں سے ملبے کے قریب آنے کے لیے لڑ رہا تھا... جب ذرا غور کر کے دیکھا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ملک کا جانا مانہ مذہنی اسکالر "عامر لیاقت حسین" تھا جو فوج کے جوانوں رینجرز کے اہلکاروں اور پولیس کے نوجوان سے لڑ رہا تھا صرف ایک شاٹ کے لئے... الامان الحفیظ
مگر پھر مجھے ایک دفعہ پھر سے دیدار ہوا "پیرِ کامل ڈنڈا پیر" کا... ڈنڈا پیر نے اپنے کمال دکھایا اور سارا کچرا پلک جھپکتے ہی سمٹتا چلا گیا

اب تک شام کے 5 بج چکے تھے اور میں اب دھویں اور روزے کے باعث نڈھال ہو چکا تھا اور بار بار پانی سے سر دھونا بھی اب بے اثر ہو چکا تھا...
اس لئے متاثرہ مقام سے باہر نکلنا ناگزیر ہوگیا تو میں باہر آگیا اور اپنے دوستوں سے رابطہ کر کے فورسز کے جوانوں اور دیگر رضاکاروں کے لئے افطاری کا انتظام کرنے لگا اور 20 دیگوں کا آرڈر لگوا دیا...
لیکن بھائیو جب افطاری کا وقت قریب آیا تو میں حیران تھا کہ اس وقت تک اتنے لوگ
افطاری کا سامان... پانی کی بوتلیں... شربت... جوس... کھانہ... لے لے کر پہنچ چکے تھے کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے اچانک اتنی شدید تعداد میں نمودار ہو گئے ہیں... یقین جانیں اس وقت میرے دل نے گواہی دی کہ یہ ملک خداداد انہی اللہ کے بندوں کی وجہ سے قائم ہے...
یقین کریں اتنا وافر سامان لوگ لے کر پہنچ گئے تھے کہ مجھے اپنی 20 دیگوں کا آرڈر ختم کروانا پڑ گیا کیونکہ کہ اس کا ضائع جانا یقینی ہو گیا تھا...بس پھر ہم نے کھانے کے بجائے پانی کی بوتلوں اور ٹھنڈے اسپرے کا انتظام کیا اور ایک دفعہ پھر سے ریسکیو کے کام میں شامل ہو گئے

No comments:

Post a Comment