سعودی عرب کی پانچ سال تک ادھار تیل دینے پر امادگی
جلال الدین حقانی۔۔۔۔۔۔دنیا اسلام کا ایک عظیم سپہ سالار
انگریز سفیروں کی معافیاں
ہیملٹن کے مطابق سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے علاقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ دیا، اور جو سپاہی جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈالا، اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں پہنا کر بمبئی کی گلیوں سے گزارا گیا۔'
مغل دربار میں حاضری
ان سفیروں کے نام جارج ویلڈن اور ابرام نوار تھے۔ یہ کئی ماہ کی بےسود کوششوں کے بعد بالآخر ستمبر 1690 کو آخری طاقتور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل کرنے کامیاب ہو گئے۔
دل کا بوجھ
کراچی ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ''یار یہ شراب کو شہد اور زیتون کے تیل میں تبدیل کرنے کا فن تم لوگوں نے کہاں سے سیکھا؟ کیا اسے بھی ''ثقافت'' کی طرح موہنجودڑو کا ''فن'' تسلیم کرلیا جائے؟ میرا دوست عبدالحفیظ کہ جس کی توجہ ائیرپورٹ پارکنگ سے گاری نکانے پر تھی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ''سائیں'' محمد بن قاسم کے سندھ میں تو ''شراب'' کو ''شراب'' ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا اور حتیٰ کہ راجہ داھر کے سندھ اور موہنجودڑو کی ہندو ثقافت میں بھی ''شراب'' کو شراب ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا مگر آج کل ہم ''زرداری''کے سندھ میں زندہ ہیں۔
زرداری کے سندھ میں اگر ''شراب'' ترقی کرتے کرتے ''شہد'' اور ''زیتون'' کی شکل اختیار کر گئی ہے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا؟ ویسے آپس کی بات ہے اسلام آباد والے اس ترقی سے جلتے کیوں ہیں؟
عبدالحفیظ کا شرارتی سوال سن کر بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے اس خاکسار نے جواب دیا کہ ''اسلام آباد والوں کی جلے جوتی''... لیکن جناب زرداری کے سندھ میں صرف ''شراب'' نے ہی ترقی کیوں کی؟ کراچی ٹھٹھہ' سجاول' بدین' حید رآباد' کنڈیارو' سکھر' جیکیب آباد' شکار پور' محراب پور' ٹنڈو آدم' کھپرو' سیدپور خاص اور سندھ کے دوسرے شہروں نے ترقی کیوں نہیں کی؟ تھرپارکر میں تو آج بھی معصوم بچے' دو ائی اور خوراک پوری نہ ہونے کے سبب غمزدہ مائوں کی جھولیوں میں دم توڑ رہے ہیں۔
کراچی میں لوگ پانی کی تلاش میں مارے' مارے پھر رہے ہیں اگر انہیں پانی ملتا بھی ہے تو وہ بھی صاف نہیں ہوتا ۔اندرون سندھ کے عوام نہروں اور جوہڑوں کا گندہ پانی آج بھی پینے پر مجبور ہیں' جس کی وجہ سے یرقان جیسے موذی مرض میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے' لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی ترقی صرف ''شراب'' کو ''شہد'' بنانے تک ہی محدود ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
عبدالحفیظ رحیمی نے منہ بسورتے ہوئے کہا کہ سائیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد والے شراب کو شہد اور زیتون کے تیل میں تبدیل کرنے کو ''ترقی'' ہی نہیں مانتے؟ حالانکہ جو کام دنیا کی پانچ سو بڑی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے نہ کر سکے' جس کارنامے کو سرانجام دینے میں سائنس بری طرح ناکام رہی' وہ ''عظیم'' کارنامہ شرجیل انعام میمن نے کر دکھایا اس پر جناب زرداری کی نیک نامی ہونی چاہیے یا بدنامی؟ آخر سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی' سجل سرمست اور عبداللہ شاہ غازی جیسے صوفیاء کی دھرتی ہے اس سندھ دھرتی میں دو کلو میٹر پر پھیلا چوکنڈی قبرستان بھی ہے کہ جہاں جرنیل اسلام محمد بن قاسم کے مجاہدین کی قبور ہیں سندھ دھرتی کو بابا الاسلام بھی کہا جاتا ہے اگر سندھ دھرتی سے شراب کے ناپاک محلول کو شہد اور زیتون میں تبدیل کرنے کا فن شرجیل میمن جیسے فنکار نے ایجاد کر ہی لیا ہے تو اس پر اسے داد دینی چاہیے۔
میں نے اس بحث کو سمیٹے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں شرجیل انعام میمن کی سب جیل نما عشرت گاہ پر چھاپہ کسی ائیرے غیرے نے نہیں بلکہ خود چیف جسٹس ثاقب نثار نے مارا تھا اور شراب کی بوتلوں کی برآمدگی کے بھی وہ خود عینی شاہد ہیں' اور عزب مآب چیف جسٹس کے سامنے شرجیل میمن نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ہاں یہ شراب ہی ہے... مگر میری نہیں۔
جس بات کے چیف جسٹس خود گواہ ہوں اگر بعد میں انہیں بوتلوں سے شراب گرا کر ان میں زیتون کا تیل اور شہد بھر دیا جائے۔ اس قسم کی مجرمانہ فنکاری کرکے جرم کے ثبوت مٹا بھی دئیے جائیں' تب بھی مجرم پر جرم کا بوجھ بڑھ جاتا ہے' قیدی نواز شریف جیسا تین بار وزیراعظم رہنے والا ہو یا اس کی بیٹی اور داماد' مخالف بھی جانتے ہیں کہ ''ہاں'' حکومت ان کے ساتھ قیدیوں والا سلوک ہی کر رہی ہے لیکن آخر یہ سندھ میں ایسا کیا ہے کہ شرجیل میمن ہوں' یا دوسرے اس ٹائپ کے بڑے مگرمچھ قیدی انہیں جیل بھیجا جاتا ہے مگر وہ ربڑ کی گیند کی طرح جیل سے ٹکرا کر واپس ہسپتالوں کی عشرت گاہوں میں پہنچ کر گل چھرے اڑاتے ہیں؟ نواز شریف اڈیالہ جیل کے قیدی رہیں تو قید کی سختیوں کی وجہ سے ان کا وزن تو 15کلو گر جائے... قید کی پابندیوں اور سختیوں کی وجہ سے مریم نواز کو تو پہنچاننا بھی مشکل ہو جائے' مگر شرجیل میمن کا ''قید'' بھی کچھ نہ بگاڑ سکے؟
کوئی وزیراعظم عمران خان سے پوچھے کہ کیا وہ سندھ دھرتی کے وزیرعظم نہیں ہیں؟ جو قانون راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے قیدی ''نواز شریف'' پر لاگو ہوتا ہے' وہ قانون کراچی کی سنٹرل جیل اور لانڈھی کی بچہ جیل کے نیب زدہ قیدیوں پر لاگو کیوں نہیں ہوتا؟
مجھے نواز شریف یا شریف خاندان سے نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی کوئی تعلق واسطہ' لیکن خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ اس طرح احتساب کی یکطرفہ ٹریفک چلانے سے تو عمران خان کے احتساب اور کڑے احتساب کا دعویٰ خود ''بے نقاب'' ہو رہا ہے' ایک طرف وزیراعظم عمران خان سیکولوں' کالجوں اور مدارس کے یکساں نصاب تعلیم کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ بدھ 12ستمبر یکم محرم الحرام 1440ھ یوم شہادت سیدنا فاروق اعظم کے موقع پر صوبہ خیبرپختونخواہ میں عام تعطیل تھی جبکہ زرداری کے سندھ میں یوم شہادت حضرت سیدنا عمر فاروق کے دن چھٹی تو بہت دور کی بات مدح صحابہ کے سلسلے میں جلوس نکالنے پر بھی پابندی تھی سندھ میں خلیفہ ثانی امام عدل و انصاف سیدنا عمر فاروق کا دن منانے پہ پابندی لگانا سندھ حکومت کی سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا؟
اگر تو عمران خان صرف اسلام آباد ' کے پی کے' پنجاب اور بلوچستان کے وزیراعظم ہیں تو پھر ان سے شکوہ کیا؟ لیکن اگر سندھ بھی ان کی وزارت اعظمیٰ کے نیچے آتا ہے تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ جن شراب کی بوتلوں کے چیف جسٹس خود گواہ ہیں وہ شہد اور زیتون کے تیل میں کیسے تبدیل ہوئیں؟
اگر پرویز خٹک کی پچھلی حکومت نے کے پی کے میں حضرت سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے دن عام تعطیل کا اعلان کیا تھا تو اس درست فیصلے کو بقیہ پاکستان پر لاگو کرنے میں کون رکاوٹ ہے؟ جیسے ہی بات ختم ہوئی' میرے دوست نے گاڑی روک دی... اور کہا کہ وہ سامنے چوکنڈی کا تاریخی قبرستان ہے' چلیں قبرستان میں فاتحہ پڑھ کر دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں... اور پھر ہم نے قبرستان کی طرف قدم بڑھا دئیے۔
عسکری تاریخ کے نامور سپہ سالار۔۔۔جلال الدین حقانی
حضرت عمر فارقؓ
سیدنا عمر فاروق نے محمد کریمۖ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا … محسن انسانیت ۖ نے خوش ہوکر اللہ اکبر کی صدا بلند کی … تب صحابہ کرام نے بھی تکبیر کا نعرہ بلند فرمایا … ایسا بلند کہ جس سے مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں … ایک شاعر نے کیا دلنواز نقشہ پیش کیا ہے کہ
تمہیں یارو مبارک ہو عمر ابن خطاب آیا
خدا سے میں نے مانگا تھا دعائوں کا جواب آیا
وہ آیا ہے تو آنے دو بچھا دو پلکیں راہوں پر
وہ پہلا سا نہیں لگتا کرو نہ شک نگاہوں پر
وہ آیا ہے نہ جانے کو خدا کا انتخاب آیا
سیدنا عمر فاروق مسلمانوں کے حق میں بڑے نرم … اور جارح کافروں پر بڑے سخت تھے … محبوب دو عالم ۖ کے حکم سے سرتابی کی … نہ جرات کرتے تھے … اور نہ ہی برداشت کرتے تھے …
نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے '' ایک اور حدیث رسولۖ ہے کہ اللہ رب العزت نے حق کو عمر کی زبان کے ساتھ رکھ دیا ہے … سو وہ ہمیشہ حق ہی کہتے ہیں … حضرت ابویسر روایت کرتے ہیں کہ ''حضور اکرمۖ نے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ! اے عمر اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کی خوشخبری سنائی ہے''… حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا ''جس راستے سے عمر گزرتے ہیں … شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر ہولیتا ہے۔''
حضرت نزال فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت علی سے ملے … سیدنا علی المرتضیٰ خوشی و مسرت کی حالت میں تھے … ہم نے عرض کیا اے امیر المومنین! عمر بن الخطاب کے متعلق کچھ ارشاد فرمایئے … حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے فرمایا کہ عمر بن الخطاب ایسے بزرگ تھے … جن کا نام اللہ کے رسول ۖ نے فاروق (حق و باطل میں فرق کرنے والا) رکھا ہے۔ حضور کریم ۖ سے میں نے سنا ہے کہ آپۖ فرماتے تھے … اے اللہ عمر کے ذریعہ اسلام کو عزت اور غلبہ عطا فرما!
جنگ بدر ہو' جنگ احد ہو' جنگ خندق ہو' فتح خبیر …یا غزوہ حنین' سیدنا فاروق اعظم ہر غزوہ میں محمد کریمۖ کے جھنڈے تلے … دشمنان اسلام کے خلاف برسر پیکار رہے … اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے … آقاء مولیٰۖ کی قیادت میں نماز اعلانیہ بیت اللہ میں جاکر پڑھی … مگر مشرکین مکہ کو جرات نہ ہوسکی کہ … وہ بیت اللہ میں نماز کی ادائیگی سے روک سکتے۔
خلیفہ بلافصل حضرت سیدناابوبکرصدیق کی وفات کے بعد … آپ خلیفہ ثانی بنائے گئے … سیدنا فاروق اعظم کا دور اسلام کی شان و شوکت اور فتوحات کا سنہری دور ثابت ہوا۔
آپ نے اپنے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار مربع میل سے زائد علاقے کو فتح کرکے وہاں پرچم اسلام کو لہرایا…عراق ہو ' شام ہو ' دمشق ہو ' حمص' یرموک ' الطاکیہ ہو ' بیت المقدس ہو ' قسیاریہ ہو ' جزیرہ خوزستان ہو ' ایران ہو یا فارس ' کرمان ' سیستان ' مکران' خراسان ' مصر ' اسکندریہ گویا کہ عرب و عجم کے ایک وسیع ترین حصے پر کفریہ طاقتوں کو شکست دے کر مضبوط ترین اسلامی سلطنت قائم کی۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم… محسن عالم محمد کریمۖ کے شاگرد خاص تھے اس لئے … بے لاگ عدل و انصاف آپ کا طرہ امتیاز تھا … جرم کرنے والا کوئی بھی ' کسی بھی خاندان کا کیوں نہ ہو … مگر وہ مجرم کی شان یا خاندانی وجاہت کو خاطرمیں لائے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے فرمایا کرتے تھے … حضرت سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں بے شمار کارہائے نمایاں سرانجام دیئے … آپ نے اپنے دور خلافت میں باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیا … اور ملک میں قاضی مقرر کیے ' فوجی ہیڈ کوارٹر بنائے ' دفتر مال قائم کیا ' رقبوں اور سڑکوں کی پیمائش کروائی ' مردم شماری کروائی ' نہریں کھدوائیں ' غیر مسلم تاجروں کو تجارت کی غرض سے اپنے ملک میں آنے جانے کی سہولتیں مہیا کیں … پولیس کا محکمہ قائم کیا ' بے روزگار یہودیوں اور عیسائیوں کے وظیفے مقرر کیے … مسجدوں میں روشنی کا انتظام کیا … امام اور موذنوں کے وظائف مقرر کیے ' جیل خانے قائم کیے … فوجی چھائونیاں قائم کیں ' مختلف شہروں میں مہمان خانے قائم کیے … سن ہجری کی ابتداء کی اور اسکا تعین ہجرت کے سال سے کیا ' یہ قاعدہ مقر ر فرمایا کہ آئندہ اہل عرب غلام نہیں بنائے جائیں گے … نماز تراویح جماعت کے ساتھ قائم کی ' شراب نوشی کی حد اسی کوڑے مقرر کی … عشر کا طریقہ قائم کیا ' جب رعایا سو رہی ہوتی تھی حضرت سیدنا امام عمر راتوں کو گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر کر رعایا کے حالات معلوم کرنے کیلئے گشت کیاکرتے تھے … حضرت سیدنا عمر فاروق کی شخصیت کا کمال دیکھئے کہ … آدھی سے زائد دنیا پر حکمران تھے … مگر اپنی ذاتی حفاظت کیلئے کسی ایک بھی شخص کو باڈی گارڈ کے طور پر رکھنا گوارا فرمایا … میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو باڈی گارڈ ز کے لشکروں … کے پہرے میں دیکھتا ہوں تو یہ سوچتے ہوئے دل تھام کے رہ جاتا ہوں کہ … یہ کیسی بلائیں ہیںکہ جو مسلمان قوم کے گلے آن پڑی ہیں؟
آپ کے قاتل کا نام فیروز تھا … ''ابولولو'' اس کی کنیت تھی … وہ ایران کا مجوسی تھا … سیدنا فاروق اعظم نے جب فجر کی نماز کی امامت شروع کروائی تو بدبخت ''فیروز'' نے زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا … خنجر کے چھ وار سہنے کے بعد … آپ نے گرنے سے قبل اپنے پیچھے کھڑے ہوئے … حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر امامت کیلئے اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا … اس نازک صورت حال میں بھی انہوں نے نماز پڑھائی 'بدبخت فیروز لولو اور اس کے … منافق سرپرست تو … خنجر کے وار کرکے … سیدنا فاروق اعظم کے وجود کو مٹانا چاہتے تھے … مگر آج سوا چودہ سو سال بعد بھی … صرف ایک ارب 22 کروڑ مسلمان ہی نہیں بلکہ پانچ ارب کے لگ بھگ کافر بھی یہ بات مانتے ہیں کہ … دنیا میں اگر ایک عمر اور آجاتا تو دنیا کے نقشے سے کفر کانام و نشان ہی مٹ جاتا۔
سیدنا عمر کی عظمت و شان ' رفعت و سربلندی دیکھیئے کہ … روضہ رسول ۖ میں … محمد کریم ۖ کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔ سبحان اللہ
(وما توفیقی الا باللہ)
جیل میں کچھ ہفتے گزارنے کے بعد مریم نواز کے ظاہری حلیے میں کتنی تبدیلی آ چکی ہے ؟ دنگ کر ڈالنے والا احوال سامنے آ گیا
لاہور(ویب ڈیسک)سیاسی قیدیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والی راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل ان دنوں تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور ان کے ساتھی حنیف عباسی کی میزبان ہے۔ مجھ جیسے صحافیوں کو سیاسی قیدیوں سے
نامور کالم نگار ارشد وحید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔ ملنے کیلئے اسلئے بھی بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس قلم کی صورت میں بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔اڈیالہ جیل میں اسیر باپ بیٹی سے ملاقات کی کوشش میں بھی یہی مفاد کارفرما تھا کہ یہ کھوج لگائی جائے کہ تین بار وزیر اعظم کے منصب پہ فائز رہنے والے نواز شریف اور نازو نعم میں پلی ان کی بیٹی مریم نواز کے جیل میں شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ اس ملاقات کو ممکن بنانے کیلئے ایک با اثر دوست کی خدمات حاصل کیں ۔ ملاقاتیوں کی فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز تک پہنچنے کیلئے اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ پر گاڑیوں کی طویل قطار میں لگنے سے انتظار گاہ پہنچنے تک کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظار گاہ سے دس سے پندرہ افراد کو گروپوں کی شکل میں دو تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ملاقات کی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر جسمانی تلاشی لینے کے ساتھ آپ کے ہاتھ پرانٹری اسٹیمپ لگائی جاتی ہے۔ راہداری میں داخل ہو کر بالآخر آپ اس ہال میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مقدمے میں احتساب عدالت سے دس اور سات سال کی سزا
پانے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ملاقاتیوں کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ میٹنگ روم کی طرز پر قائم اس ہال میں چار قطاروں میں لگی کرسیوں پر تقریباً تیس سے پینتیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس میں ایک ایئر کنڈیشن اور دو پنکھے لگائے گئے ہیں، ملاقاتیوں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کیلئے کلوز سرکٹ کیمرے بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قیدیوں اور ملاقاتیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے کیلئے متعلقہ عملہ بھی ارد گرد ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اونچی آواز میں صرف غیر سیاسی گفتگو ہی کی جا سکتی ہے۔ ہال میں داخل ہونے پرمیاں صاحب نے قلم کار کو خصوصی عزت دیتے ہوئے مریم نواز کی قریبی نشست پر بیٹھنے کا کہا جس سے مریم نواز اور میاں صاحب سے دبے لفظوں میں طویل گفتگو کا موقع مل گیا۔ ایفی ڈرین کیس میں سزا پانے والے حنیف عباسی جیل میں بھی اپنے مخصوص پرتپاک انداز میں بغل گیر ہوئے۔ ہال میں مریم اورنگزیب، محمد زبیر، جاوید لطیف، شیخ آفتاب،بلیغ الرحمان، زیب جعفر،ثانیہ عاشق ، زیب النساء اور دیگر لیگی رہنما اور تین چار کارکنان بھی اپنے قائد اور ان کی بیٹی کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے نظر آئے۔ نواز شریف
اور مریم نواز کے وزن میں نمایاں کمی کو دیکھ کرجیل کے شب وروز کا اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن باپ بیٹی استفسار کے باوجود کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے۔ مروت کے قائل نواز شریف ہر ملاقاتی سے کھڑے ہو کر سلام دعا کرتے جبکہ ان کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرنے پر خود ان کی ہمت بندھاتے اور ملاقاتیوں سے صرف دعا کرنے کی درخواست کرتے۔نواز شریف کے ہاتھ میں چھوٹی تسبیح تھی جبکہ وہ آسمانی رنگ کی اپنی پسندیدہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے جس کی سامنے والی جیب میں لگی عینک دیکھ کر مجھے 1999ءمیں لانڈھی جیل میں بطور قیدی ان کا اندراج کرتے سپرنٹنڈنٹ جیل کا وہ تضحیک آمیز جملہ یاد آ گیا جب اس نے نواز شریف کی جیب میں لگے پین کو دیکھ کر ادا کیا تھا۔ تب والی غلطی انیس سال بعد ضد بن کر نواز شریف کو پھر اسی مقام پر لے آئی ہے تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ تب وہ اٹک قلعے کی صعوبتوں ،لانڈھی جیل کی تضحیک اور ہتھکڑیوں سے باندھ کر کراچی کی خصوصی عدالت میں پیشی جیسے تحقیر آمیز سلوک کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے آمر پرویز مشرف سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کر کے جدہ روانہ ہو گئے تھے
تاہم اس بار جیل اور اسیری کی کٹھن بھری زندگی کا راستہ انہوں نے خود چنا ہے۔ تب وہ بطور باپ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنے ساتھ حراست میں لئے گئے اپنے بیٹے حسین نواز کیلئے فکر مند تھے توآج انہیں ساتھ سزا کاٹنے والی اپنی بیٹی مریم نواز کو دیکھ کر پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔تاریخ کے اس دہرائے جانےکے بارے میں،میں نے مریم سے استفسار کیا کہ کیا خود احتسابی کے دوران باور ہوا کہ اس ہونی کو روکا جا سکتا تھا توایک توقف کے بعد ٹھوس لہجے میں نفی میں جواب دیتے انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھی کر لیتے ہونا یہی تھا کیونکہ کرنیوالے ،طے کر چکے تھے۔ اپنی ضمانت پر رہائی کے بارے میں باپ بیٹی بدستور بے یقینی کا شکار نظر آئے لیکن اپنے مقصد کو پانے کا عزم ایسا غیرمتزلزل کہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ بطور انسان دونوں صرف نازک رشتوں کے باعث کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ آنسو ان کی آنکھوں سے باہرنہ چھلکنے پائیں۔
مریم نواز نے بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہیں کہ ہر روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک دن چند منٹ کیلئے ان کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتی ہے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن 20منٹ کیلئے جیل کے پی سی او سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں اور براستہ لاہور لائن ملنے سے اس میں سے بھی تین چار منٹ صرف ہوجاتے ہیں۔ ان کیلئے عید الضحی پر میاں صاحب کی والدہ ( آپی جی) کی جیل میں ان سے ملاقات کو یاد کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جب وہ جیل میں بیٹے اور پوتی سے ملیں تو پوری جیل میں ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بیٹے اور پوتی کو جیل میں چھوڑ کر واپس جانے کیلئے بھی تیار نہ تھیں اور بضد تھیں کہ ان کیساتھ ہی رہیں گی۔ جب روتی ہوئی والدہ کوزبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا تو تب بیٹے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ میاں صاحب سے معلوم ہوا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورباپ بیٹی کو ایک دوسرے سے صرف اتوار کو ملاقات کرنے کی اجازت ہے جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
استین کے سانپ
جنرل ضیاء کا قتل کتنی بڑی سازش تھی اور اس کے پیچھے کون کون تھا؟
عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی اندرون بیرون ملک پاکستان میں واضح تبدیلی ،’’کپتان‘‘ پر کڑا وقت آنے والا ہے لیکن ۔۔۔! بڑا دعویٰ کردیاگیا
Dhairi Sialkot UC Pattan Kalan Near Thandiani Abbottabad
محمد عبداللہ کے قلم سے
Message for Insaf Youth Wing
خیرات پر گزارہ کرنے سے 19بلین تک کا سفر
میں اور میرے استاد محترم
نواز شریف کو کیوں نکالا زرا غور سے پڑھ لو
مس عائشہ اور طارق کی محبت کی لاجواب کہانی
مس عائشہ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ طارق ﺗﮭﺎ۔ طارق ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
مس عائشہ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ طارق ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ طارق مس عائشہ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ طارق ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
مس عائشہ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ مس عائشہ ﻧﮯ طارق ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " مس عائشہ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ طارق ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞ ﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ طارق ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " مس عائشہ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ مس عائشہ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ طارق ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ اگلے دن مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " طارق ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ طارق ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " مس عائشہ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " طارق ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ طارق ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " مس عائشہ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ طارق ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ طارق ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ طارق ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ مس عائشہ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ طارق ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
طارق ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ مس عائشہ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎمس عائشہ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ طارق ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ مس عائشہ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎف ہوتے ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ طارق ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ مس عائشہ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯽ ﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ طارق ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ طارق ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ طارق ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ "
ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ طارق ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ طارق ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ:
" ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - " فقط ڈاکٹر طارق
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ جہاز ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ مس عائشہ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ وہ دوسرے شہر کے لئے ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ شادی کی جگہ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ کہ وہاں موجود نکاح خواں ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ طارق تقریب کی ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ﺍﻥ ﮐﺎ وہ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ - !
!!ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، طارق ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ