سعودی عرب کی پانچ سال تک ادھار تیل دینے پر امادگی


کیا واقعی ن لیگی رہنما رانا مشہود کا یہ دعویٰ درست ہے کہ '' اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوگئے؟2 ماہ میں پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ہوگی'' گو کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے اس بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ''ن لیگی رہنما کا بیان افسوسناک ' بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ اور ملکی استحکام کے لئے نقصان دہ ہے'' ن لیگی رہنما کے اس دعوے اور پاک فوج کے ترجمان کی برہمی کے بیچ پھنسے ہوئے بے چارے عوام پوچھتے ہیں کہ اگر رانا مشہود کا بیان واقعی بے بنیاد' غیر ذمہ دارانہ اور ملکی استحکام کے لئے نقصان دہ ہے تو پھر ابھی تک اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے اسے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟
ملکی استحکام کو نقصان پہنچانے والوں کو اتنی چھٹی کیوں دی جاتی ہے کہ وہ یوں سرعام ''سیاست'' کرتے  پھریں؟ نواز شریف' مریم نواز اور ان کے خاوند کیپٹن (ر) محمد صفدر کی ضمانت اور ضمانت کے بعد  ان کی شریفانہ خاموشی اس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ مسٹر نواز شریف کا بیانیہ اور نظرئیے کو کسی گمنام مقام پر دفن کیا جاچکا ہے' جو نواز شریف اپنے ''بیانیئے'' کے دفاع میں بڑے طمطراق سے اپنی بیمار بیوی کو موت کے منہ میں چھوڑ کر گرفتاری دینے پاکستان واپس آئے تھے5... دن پیرول  پر رہائی کے اور پھر ضمانت کے بعد اب تک  ان کا اپنے ''بیانیئے'' کے حوالے سے پرسرار انداز میں خاموش رہنا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آخر ... کچھ تو ہے کہ جس کی پردہ داری ہے؟
لیکن قوم رانا مشہود کے مقابلے میں پاک فوج کے ترجمان کی بات پر سو فیصد یقین اور اعتماد کرتی ہے... لیکن اتنا مطالبہ ضرور کرتی ہے کہ آخر ملکی سلامتی کے اداروں کو اس طرح سے بدنام کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کب کھڑا کیا جائے گا؟ پاکستان نے سعودی عرب سے تین ماہ تک یومیہ دو لاکھ بیرل تیل ادھار دینے کی درخواست کی تھی... مگر ہمارے وزیر پٹرولیم نے قوم کو خوشخبری دی ہے کہ تین یا چھ ماہ کے لئے نہیں' بلکہ سعودی عرب پاکستان کو پانچ سال کے لئے ادھار تیل دینے پر رضا مند ہوگیا  ہے ... وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کے مطابق سعودی عرب گوادر میں آئل ریفائزی لگانے میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔
خوش قسمتی سے ان دنوں سعودی عرب کا ایک وفد بھی سعودی وزارت توانائی صنعت و معدنی وسائل کے مشیر احمد حمید الغامدی کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے... یقینا پاکستانی حکام کے سعودی وفد کے ساتھ مذاکرات بھی چل رہے ہیں' سعودی عرب اس وقت سی پیک میں بھی پاکستان کا پارٹنر بن چکا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان  کی بے مثال دوستی کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں ہے' میری دعا ہے کہ دو اسلامی ملکوں کی اس بے مثال دوستی کو کبھی زوال نہ آئے (آمین)
ملکی معیشت اور مالی بحران نے آج پاکستان کو جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے  یقینا اس میں سابق حکمرانوں کی شہہ خرچیوں اور اللے تللوں کا بھی ہاتھ ہے... تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ابھی پچاس دن ہی مکمل ہوئے ہیں... لیکن اشیاء خوردونوش' بجلی' گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پاکستانیوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
ابھی تک حکومت کاسئہ گدائی  لے کر آئی ایم ایف کے دوبار میں نہیں پہنچی' اگر وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف کے حضور بھی جا پہنچے تو پھر غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں انسان مہنگائی کی قبر میں ہی دفن ہونے پر مجبور ہو جائیں گے... یہودی آکٹوپس آئی ایم ایف سے کسی خیر کی امید رکھنا عبث ہے' اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان کا سعودی عرب کے حکمرانوں کے حوالے سے  موقف جیسا' تیسا بھی کیوں نہ رہا ہو... لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے بعد انہیں فقط دوستی کا دعویٰ کرنے والوں اور پاکستان سے دوستی کی خاطر قربانی دینے والوں کے درمیان فرق سمجھ آیا... اور انہوں  نے عقلمندی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے وزیراعظم بننے کے بعد اپنے پہلے دورے کے لئے سعودی عرب کو ہی منتخب کیا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عمران خان سے سب سے پہلے سعودی عرب کے اسلام آباد میں متعین سفیر نواف سعید المالکی نے ملاقات کرکے انہیں مبارکباد پیش کی تھی' وزیراعظم عمران خان نے اپنے وفد کے ہمراہ عمرہ کی سعادت تو حاصل کی ہی تھی... مگر اس کے ساتھ ہی سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلیمان کے ہمراہ ہونے والی ملاقاتوں میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مزید تجارتی قربتیں بڑھانے کے فیصلے بھی ہوئے۔
''دوست'' وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں کام آئے... دعوے کرنے والے تو  بہت ہوتے ہیں مگر دیکھا یہ جاتا ہے کہ مشکل وقت میں کام کون آیا؟ پاکستان کے عوام کو اس بات پہ فخر ہے کہ ہم نے کسی بھی بڑی سے بڑی مشکل میں سعودی عرب جیسے اسلامی ملک کو تنہا چھوڑنا  گوارانہ کیا' ہماری حکومتیں چاہے کرپٹ بھی کیوں نہ رہیں ہوں' مگر عوامی نبض کو سمجھتے ہوئے انہوں نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے تحفظ کو پاکستان کی ذمہ داری سمجھا۔
بالکل اسی طرح ''پاکستان '' پر جب' جب بھی مشکل وقت آیا' سعودی عرب نے بھی پاکستان کی مدد کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا' سعودی عرب کے حکمرانوں نے صرف حکومتی سطح تک ہی... بلکہ پاکستانی عوام تک اپنی مدد کے اثرات پہنچانے کی پوری کوشش کی' آسمانی آفات ہوں یا عالمی حالات کے اثرات' سعودی عرب نے پاکستان کو ان 71سالوں میں کسی بھی تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
خراب معیشت اور مالی بحران کے اس نازک موڑ پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے ادھارے تیل کی خریداری' گوادر میں آئل ریفائزی کے قیام  پر سعودی عرب کی آمادگی اور سعودی عرب کا مواصلات سمیت دیگر شعبوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لینا' یقینا خوش آئند ہے۔

جلال الدین حقانی۔۔۔۔۔۔دنیا اسلام کا ایک عظیم سپہ سالار

جلال الدین حقانیؒ
قلم تلوار...قاری نوید مسعود ہاشمی (شمارہ 660)
عالم ربانی جلال الدین حقانیؒ۔۔۔ مجاہد کبیر ہونے کے ساتھ ساتھ شجاعت، زہد و تقویٰ، ایثار و محبت، سخاوت اور انسانیت سے پیار کرنے کی عظیم دولت سے بھی مالا مال تھے۔۔۔ ان سے جہاں ایک طرف ماسکو اور واشنگٹن کے غنڈے لرزہ براندام رہتے تھے۔۔۔ وہاں دوسری طرف افغانستان کے مظلوم انسان انہیں اپنے لئے ایک شجر سایہ دار سمجھتے تھے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مولانا حقانیؒ یا ملا محمد عمر مجاہدؒ نے کسی دوسرے ملک پر حملہ آور ہونے کی کوشش کبھی نہ کی۔۔۔ بلکہ اپنے آپ کو سپر پاور سمجھنے والی دنیا کی دو سلطنتوں نے یکے بعد دیگرے افغانستان پر خوفناک حملے کئے۔۔۔ جلال الدین حقانیؒ نے سویت یونین اور امریکہ کی جارحیت اور خوفناک حملوں سے افغانستان کے انسانوں کو محفوظ رکھنے کیلئے جو تاریخی جدوجہد کی۔۔۔ وہ ہمیشہ یاد گار رہے گی۔
غیر جانبدار مؤرخ جلال الدین حقانی کو انسانیت کا چمکتا ہوا ستارہ اور آزادی کا استعارہ قرار دینے پر مجبور ہو گا، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان محمود غزنویؒ، محمد بن قاسمؒ ، طارق بن زیادؒ، امام شاملؒ کی طرح مولانا جلال الدین حقانیؒ کا نام بھی جہادی تاریخ میں قیامت تک جگمگاتا رہے گا، جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔۔۔ جلال الدین حقانیؒ کی جہادی طاقت کا جادو، دشمن کے سر چڑھ کر بولا۔
آپ عاجزی و انکساری، محبت و مؤدت اور صبر و استقامت کا پہاڑ تھے۔۔۔ آپ نے انتہائی پُرآشوب دور میں جہاد شروع کیا۔۔۔ ایک ایسا دور کہ جہاں قدم، قدم پر قسما قسم کے فتنے رُکاوٹیں ڈال رہے تھے۔۔۔ لیکن کمال یہ ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک، اپنوں کی طرف سے پھینکے جانے والے تیر ونشتر، اور بچھائے جانے والے کانٹوں کو انتہائی حوصلہ مندی سے برداشت کیا، مگر اپنی توجہ امریکی دہشتگردی کا راستہ روکنے پر ہی مرکوز رکھی۔
 اس خاکسار کو1991ء کا وہ سال بھی یاد ہے کہ جب حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر کی خصوصی دعوت پر۔۔۔ مولانا حقانی اپنے کئی درجن ساتھیوں سمیت کراچی کے دورے پر تشریف لائے تو کراچی کے ولی صفت علماء نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔۔۔ انہیں ایئر پورٹ سے اکابر علماء اور چاک و چوبند مجاہد کمانڈوز کے حفاظتی حصار میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن پہنچایا گیا کہ جہاں عظیم الشان جہاد کانفرنس اپنی پوری آب و تاب سے جاری تھی۔۔۔ شہیدِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ، شہید مظلوم حضرت مفتی عبد السمیعؒ، غازی اسلام حضرت ڈاکٹر شیر علی شاہؒ، غرضیکہ علماء حق کا ایک جم غفیر تھا کہ جو مجاہد کبیر جلال الدین حقانیؒ کا خطاب سننے اور ان کی زیارت کرنے کیلئے جامعہ علومِ اسلامیہ میں پہنچا ہوا تھا۔۔۔۔ مولانا محمد مسعود ازہر اور دیگر جہادی۔۔۔’’پیغامِ جہاد‘‘ کو پھیلتا ہوا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔
یہ خاکسار، اس عظیم الشان کانفرنس میں اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری نبھا رہا تھا، اس لئے27سال پہلے مولانا جلال الدین حقانیؒ کے شاندار استقبال اور پروگراموں کے وہ مناظر آج تک میری نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔
میں تفصیل میںنہیں جاؤنگا، مگر برکت کیلئے مختصر جھلکیاں ضرور کالم کی زینت بنانا چاہتا ہوں، تاکہ آج کے نوجوان جان سکیں کہ اہل حق سے وابستہ مدارس اور خانقاہوں کا ماضی بھی انتہائی خوبصورت، جرأت مندانہ اور شاندار تھا۔
ابھی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میںجاری کانفرنس میں جلال الدین حقانیؒ اپنے خطاب سے فارغ ہوتے ہیں کہ ایک خانقاہ سے وابستہ’’شخصیت‘‘  کو میں نے دیکھا کہ وہ امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر کے کان میں۔۔۔ کوئی بات کر رہی تھی۔۔۔ وہ بات ایسی تھی کہ جسے سنتے ہی مولانا ازہر کی آنکھیں انتہائی پُرجوش انداز میں چمکنے لگیں، اور انہوں نے نہایت آہستگی سے مجھے فرمایا کہ فقیہ العصر حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اپنے مریدین کے ایک بڑے قافلے کی صورت میں۔۔۔ مولانا حقانی کو خود لینے کیلئے بنوری ٹاؤن کے باہر پہنچنے والے ہیں۔
یہ ایک ایسی دھماکہ خیز خبر تھی کہ میرے سمیت جس نے بھی سنی۔۔۔ وہ خوشی سے نہال ہو گیا۔۔۔ اور پھر ہم حضرت جلال الدین حقانیؒ کے ہمراہ جامعہ سے باہر نکلے۔۔۔ تو فقیہ العصر حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ مولانا حقانی کے استقبال کے لئے بنفس نفیس موجود تھے۔۔۔ غالباً وہ دو ڈھائی سو بڑی چھوٹی گاڑیوں کا جلوس تھا کہ جس کے ’’جلو‘‘ میں مولانا جلال الدین حقانی کو دارالافتاء والارشاد ناظم آباد میںمفتی رشید احمد لدھیانویؒ خود لیکر پہنچے۔
حضرت مفتی رشید احمد کی عظیم خانقاہ اور مدرسے کو۔۔۔ پُرشکوہ اور جدید یونیورسٹی میں تبدیل کرنے والوں کو پتہ نہیں۔۔۔ مگر 27سال قبل اس خاکسار نے اپنے کانوں سے سنا کہ فقیہ العصر حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے ۔۔۔ فاتح خوست جلال الدین حقانیؒ کو ’’سلطان عادل‘‘ کا خطاب عطاء کیا تھا۔
جلال الدین حقانیؒ سے اَکابرعلماء اور مشائخ بہت محبت کرتے تھے، اس کا مشاہدہ اس خاکسار نے تب بھی کیا کہ جب امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر، شہید اسلام مفتی محمد جمیل خانؒ اور حضرت اقدس مولانا سید یوسف بنوریؒ  کے فرزند محمد بنوری مرحوم جلال الدین حقانیؒ کے قافلے کو اَشرف المدارس گلشن اقبال لیکر پہنچے، جہاں عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم اخترؒ نے اپنے فرزند حضرت مولانا حکیم محمد مظہر اور مریدین سمیت پُرتپاک  اِستقبال کیا تھا، حضرت شاہ حکیم محمد اختر نور اللہ مرقدہ کی زیر سرپرستی ہونے والے جلسے میں مولانا جلال الدین حقانی کا خطاب نہایت پُر اثر تھا۔
صرف یہیں پر ہی نہیں،  بلکہ جامعہ رحمانیہ بفرزون، نشترپارک میں منعقدہ جمعیت علماء اسلام کی تاریخ ساز آئینِ شریعت کانفرنس میں بھی فاتح خوست مولاناحقانیؒ کا زبردست استقبال اور پُر اثر خطابات ہوئے۔۔۔ مولانا محمد مسعود ازہر  اور مفتی جمیل خان شہیدؒ،’’سلطان عادل‘‘ جلال الدین حقانی کو ساحل سمندر بھی لے گئے۔
واہ۔۔۔۔ وہ کیا خوبصورت دِن تھے کہ جن کی یادیں آج بھی میری روح میں رَچی بَسی ہیں۔۔۔ بہرحال صرف خوست یا گردیز میں ہی نہیں، کراچی میں بھی کئی روز تک اس خاکسار کو جلال الدین حقانیؒ کے قریب رہنے کا موقعہ ملا۔
سبحان اللہ! وہ ایک ایسا مرد قلندر تھا کہ تقویٰ، جس  کا توشہ،بہادری جس کی فطرت اور عاجزی جس کا خاصہ تھا، اس نے صرف افغانستان کے مظلوم انسانوں کو ہی نہیں۔۔۔ بلکہ ’’پاکستان‘‘ کے گرم پانیوں کو بھی سویت یونین سے محفوظ بنانے کیلئے بے مثال جدوجہد کی، انہیں پاکستانیوں سے بڑھ کر وطن عزیز پاکستان سے محبت تھی، وہ پاکستان میں مارا ماری،فرقہ واریت اور ہر قسم کی دہشتگردی کے زبردست مخالف تھے۔۔۔۔’’انسانیت‘‘ سے پیار کرنے والے ایک ایسے عظیم’’انسان ‘‘‘ تھے کہ جنہوں نے مظلوم انسانوں کو امریکی قہر و غضب اور دہشتگردی سے بچانے کیلئے اپنے چار کڑیل جوان بیٹے اللہ کے راستے میں قربان کر دیئے۔۔ مگر’’انسانیت‘‘ کے دشمن امریکہ کے سامنے سر جھکانا گوارا نہ کیا۔
خوبصورت اور خوب سیرت چار جوان بیٹوں کی قربانی کوئی معمولی بات نہیں۔۔۔ بلکہ جہادی تاریخ کا وہ انوکھا واقعہ ہے کہ جس پر تاریخ ہمیشہ نازاں رہے گی۔
یادش بخیر فقیہ العصر مفتی اعظم مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نور اللہ مرقدہ، جب مریدین کے ایک بڑے وفد کے ہمراہ افغانستان میں خوست کے دورے پر پہنچے۔۔۔ اور جب قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کو امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر ڈی آئی خان سے کمانڈر جلال الدین حقانی کی دعوت پر خوست کے دورے پر لیکر گئے تھے۔۔۔ تب بھی یہ خاکسار وہاں موجود تھا۔۔۔ ان دونوں اکابرین کا استقبال بھی مولانا جلال الدین حقانیؒ نے کیا تھا، میرے قلب و ذہن میں ان خوبصورت دِنوں کی یادوں کا انمول خزانہ آج تک محفوظ ہے۔۔۔۔
میں ان صحافیوں میںسے نہیں ہوں  کہ جو اپنے ماضی کے جہاد پرشرمندہ، شرمندہ سے، ڈالر خور این جی اوز کے دسترخوان پر راتب خوری میں کامیابی سمجھتے ہیں۔
بلکہ  مجھے اپنے ماضی کے اس ایک، ایک لمحے پر تحدیث بالنعمت کے طور پرفخر ہے کہ۔۔۔جو مجھے اَکابر علماء اور مجاہدین حق کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا۔
جلال الدین حقانیؒ ایک ’’ایسا نایاب‘‘موضوع ہے جس پر کئی کتابیں بھی لکھی جائیں تو اس موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا:
وہ اِک شخص میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

انگریز سفیروں کی معافیاں

۔۔۔۔۔اورانگریز سفیر معافیاں مانگ رہے تھے!
واقعہ کچھ یوں ہے کہ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر کے تجارت شروع کر دی تھی۔ ان علاقوں میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئی، اور مشرق میں مدراس اور موجودہ کلکتہ شہر سے 20 میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں ہگلی اور قاسم بازار اہم تھے۔
انگریز ہندوستان سے ریشم، گڑ کا شیرہ، کپڑا اور معدنیات لے جاتے تھے۔ خاص طور پر ڈھاکے کی ململ اور بہار کے قلمی شورے (جو باردو بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی انگلستان میں بڑی مانگ تھی۔
انگریزوں کے سامانِ تجارت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے کل سامان کی قیمت کا ساڑھے تین فیصد وصول کر لیا جاتا تھا۔
مغلوں کی تجارتی پالیسی پر تنازع
اسی زمانے میں صرف انگریز نہیں، بلکہ پرتگیزی اور ولندیزی تاجروں کے علاوہ کئی آزاد تاجر بھی اسی علاقے میں سرگرم تھے۔ انھوں نے مغل حکام سے مل کر اپنے لیے وہی تجارتی حقوق حاصل کر لیے جو انگریزوں کے پاس تھے۔
جب یہ خبر لندن میں کمپنی کے صدر دفتر پہنچی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ جوزایا چائلڈ کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کے منافعے میں کوئی اور بھی حصہ دار بنے۔
اس موقعے پر جوزایا چائڈ نے جو فیصلہ کیا وہ عجیب ہی نہیں، غریب ہی نہیں بلکہ پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مقیم کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ بحیرۂ عرب اور خلیجِ بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دیں، اور جو جہاز ان کے ہتھے چڑھے، اسے لوٹ لیں۔
یہی نہیں بلکہ 1686 میں چائلڈ نے انگلستان سے سپاہیوں کی دو پلٹنیں بھی ہندوستان بھجوا دیں اور انھیں ہدایات دیں کہ ہندوستان میں مقیم انگریز فوجیوں کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیں۔
جنگِ چائلڈ
ان کے نام کی مناسبت سے اس جنگ کو ’جنگِ چائلڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اب اسے چائلڈ کا بچگانہ پن کہیں یا پھر اس کی دیدہ دلیری، کہ وہ مبلغ 308 سپاہیوں کی مدد سے دنیا کی سب سے طاقتور اور مالدار سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کر رہا ہے۔
اس زمانے میں ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ یہیں پیدا ہوتا تھا۔ معاشی طور پر اسے تقریباً وہی مقام حاصل تھا جو آج امریکہ کو ہے۔
اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کی سرحدیں کابل سے ڈھاکہ تک اور کشمیر سے پانڈی چری تک 40 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں، اورنگ زیب کی فوجیں دکن کے سلطانوں، افغانوں اور مرہٹوں سے لڑ لڑ کے اس قدر تجربہ کار ہو چکی تھیں وہ اس وقت دنیا کی کسی بھی فوج سے ٹکرا سکتی تھیں۔
دہلی کی فوج تو ایک طرف رہی، صرف بنگال کے صوبہ دار شائستہ خان کے فوجیوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق مغل فوج کی کل تعداد نو لاکھ سے بھی زیادہ تھی اور اس میں ہندوستانی، عرب، افغان، ایرانی، حتیٰ کہ یورپی تک شامل تھے۔
جب لندن سے مغلوں کے خلاف طبلِ جنگ بجا تو بمبئی میں تعینات کمپنی کے سپاہیوں نے مغلوں کے چند جہاز لوٹ لیے۔
اس کے جواب میں سیاہ فام مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے بمبئی کا محاصرہ کر لیا۔
آنکھوں دیکھا احوال
اس موقعے پر الیگزینڈر ہیملٹن نامی ایک انگریز بمبئی میں موجود تھے جنھوں نے بعد میں ایک کتاب لکھ کر اس واقعے کا واحد آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔
وہ لکھتے ہیں: 'سیدی 20 ہزار سپاہی لے کر پہنچ گیا اور آتے ہی آدھی رات کو ایک بڑی توپ سے گولے داغ کر سلامی دی۔ انگریزوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ افراتفری کے عالم میں گوری اور کالی عورتیں، آدھے کپڑے نیم برہنہ پہنے ہوئے، صرف بچے اٹھائے ہوئے بھاگی چلی جا رہی تھیں۔'
ہیملٹن کے مطابق سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے علاقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ دیا، اور جو سپاہی جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈالا، اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں پہنا کر بمبئی کی گلیوں سے گزارا گیا۔'
بمبئی کا علاقہ خاصے عرصے سے پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا۔ جب انگلستان کے بادشاہ نے پرتگالی شہزادی سے شادی کی تو یہ بندرگاہ اس کے جہیز میں انگریزوں کو مل گئی اور انھوں نے وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کر کے تجارت شروع کر دی۔
14 ماہ طویل محاصرہ
رفتہ رفتہ نہ صرف سمندر پار سے انگریز تاجر، سپاہی، پادری، معمار اور دوسرے ہنرمند یہاں آ کر آباد ہونے لگے، بلکہ ہہت سے ہندوستانیوں نے بھی یہاں رہائش اختیار کر لی اور شہر کی آبادی تیزی سے پھیلنے لگی۔
اب یہی آبادی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین تھی اور قلعہ سیدی یاقوت کے نرغے میں تھا۔ جلد ہی اشیائے خورد و نوش ایک ایک کر کے ختم ہونے لگیں۔ دوسری طرف بیماریوں نے ہلہ بول دیا اور قلعے میں محصور انگریز بمبئی کے مسموم موسم کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔
ایک اور سانحہ یہ گزرا کہ کمپنی کے ملازم آنکھ بچا کر بھاگ نکلتے تھے اور سیدھے جا کر سیدی یاقوت سے جا ملتے تھے۔ یہی نہیں، بلکہ ہیملٹن کی گواہی کے مطابق ان میں سے کئی مذہب تبدیل کر کے مسلمان بھی ہو گئے۔
سیدی اگر چاہتے تو حملہ کر کے قلعے پر قبضہ کر سکتے تھے، لیکن انھیں امید تھی کہ جلد ہی قلعہ پکے ہوئے آم کی طرح خود ہی ان کی جھولی میں آ گرے گا، اس لیے انھوں نے دور سے گولہ باری ہی پر اکتفا کی۔
یہ صورتِ حال ملک کے مشرقی حصے میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان کے دستوں نے ہگلی کے مقام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور آمد و رفت کے تمام راستے مسدود کر دیے۔
بنگال کا محاصرہ تو جلد ہی ختم ہو گیا اور دونوں فریقوں نے صلح کر لی، لیکن بمبئی میں یہ سلسلہ 15 ماہ تک دراز ہو گیا۔ آخر انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اپنے دو سفیر اورنگ زیب کے دربار میں بھجوا دیے تاکہ وہ شکست کی شرائط طے کر سکیں۔
مغل دربار میں حاضری
ان سفیروں کے نام جارج ویلڈن اور ابرام نوار تھے۔ یہ کئی ماہ کی بےسود کوششوں کے بعد بالآخر ستمبر 1690 کو آخری طاقتور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل کرنے کامیاب ہو گئے۔
دونوں اس حال میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ مجرموں کی طرح سے بندھے ہیں، سر سینے پر جھکے ہیں، اور حلیہ ایسا ہے کہ کسی ملک کے سفارتی نمائندوں کی بجائے بھکاری لگ رہے ہیں۔
دونوں سفیر مغل شہنشاہ کے تخت کے قریب پہنچے تو عمال نے انھیں فرش پر لیٹنے کا حکم دیا۔
سخت گیر، سفید ریش بادشاہ نے انھیں سخت ڈانٹ پلائی اور پھر پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
دونوں نے پہلے تو گڑگڑا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جرائم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی، پھر کہا کہ ان کا ضبط شدہ تجارتی لائسنس پھر سے بحال کر دیا جائے اور سیدی یاقوت کو بمبئی کے قلعے کا محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔
ان کی عرضی اس شرط پر قبول ہوئی کہ انگریز مغلوں سے جنگ لڑنے کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کریں، آئندہ فرماں برداری کا وعدہ کریں اور بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر جان چائلڈ ہندوستان چھوڑ دے اور دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہ کرے۔
انگریزوں کے پاس یہ تمام شرائط سر جھکا کر قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، سو انھوں نے تسلیم کر لیں اور واپس بمبئی جا کر سیدی یاقوت کو اورنگ زیب کا خط دیا، تب جا کر اس نے محاصرہ ختم کیا اور قلعے میں بند انگریزوں کی 14 مہینوں بعد گلوخلاصی ہوئی۔
ہیملٹن نے لکھا ہے کہ جنگ سے قبل بمبئی کی کل آبادی 700 سے 800 کے درمیان تھی، لیکن جنگ کے بعد '60 سے زیادہ لوگ نہیں بچے تھے۔ بقیہ تلوار اور طاعون کی نذر ہو گئے۔

دل کا بوجھ

نوید مسعود ہاشمی
کراچی ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ ''یار یہ شراب کو شہد اور زیتون کے تیل میں تبدیل کرنے کا فن تم لوگوں نے کہاں سے سیکھا؟ کیا اسے بھی ''ثقافت'' کی طرح موہنجودڑو کا ''فن'' تسلیم کرلیا جائے؟ میرا دوست عبدالحفیظ کہ جس کی توجہ ائیرپورٹ پارکنگ سے گاری نکانے پر تھی نے قہقہہ  لگاتے  ہوئے کہا کہ ''سائیں'' محمد بن قاسم کے سندھ میں تو ''شراب'' کو ''شراب'' ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا  اور حتیٰ کہ راجہ داھر کے سندھ اور موہنجودڑو کی ہندو ثقافت میں بھی  ''شراب'' کو شراب ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا  مگر آج کل ہم ''زرداری''کے سندھ میں زندہ ہیں۔
زرداری کے سندھ میں اگر ''شراب'' ترقی کرتے کرتے ''شہد'' اور ''زیتون'' کی شکل اختیار کر گئی ہے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا؟ ویسے آپس کی بات ہے اسلام  آباد والے اس ترقی سے جلتے کیوں ہیں؟
عبدالحفیظ کا شرارتی سوال سن کر بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے اس خاکسار نے جواب دیا کہ ''اسلام آباد والوں کی جلے جوتی''... لیکن جناب زرداری کے سندھ میں صرف ''شراب'' نے ہی ترقی کیوں کی؟ کراچی ٹھٹھہ' سجاول' بدین' حید رآباد' کنڈیارو' سکھر' جیکیب آباد' شکار پور' محراب پور' ٹنڈو آدم' کھپرو' سیدپور خاص اور سندھ کے دوسرے شہروں نے ترقی کیوں نہیں کی؟ تھرپارکر میں تو آج بھی معصوم بچے' دو ائی اور خوراک پوری نہ ہونے کے سبب غمزدہ مائوں کی جھولیوں میں دم توڑ رہے ہیں۔
کراچی میں لوگ پانی کی تلاش میں مارے' مارے پھر رہے ہیں  اگر انہیں پانی ملتا بھی ہے تو وہ بھی صاف نہیں ہوتا ۔اندرون سندھ کے عوام نہروں اور جوہڑوں کا گندہ پانی آج بھی پینے پر مجبور ہیں' جس کی وجہ سے یرقان جیسے موذی مرض میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے' لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی  ترقی صرف ''شراب'' کو ''شہد'' بنانے تک ہی محدود ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں  ہے؟
عبدالحفیظ رحیمی نے منہ بسورتے ہوئے کہا کہ سائیں کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام آباد والے شراب کو شہد اور زیتون کے تیل میں تبدیل کرنے کو ''ترقی'' ہی نہیں مانتے؟ حالانکہ جو کام دنیا کی پانچ سو بڑی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے نہ کر سکے' جس کارنامے کو سرانجام دینے میں سائنس بری طرح  ناکام رہی' وہ ''عظیم'' کارنامہ شرجیل انعام میمن نے کر دکھایا  اس پر جناب زرداری کی نیک نامی ہونی چاہیے یا بدنامی؟ آخر سندھ شاہ عبدالطیف بھٹائی' سجل سرمست اور عبداللہ شاہ غازی جیسے صوفیاء کی دھرتی ہے  اس سندھ دھرتی میں دو کلو میٹر پر پھیلا چوکنڈی قبرستان بھی ہے کہ جہاں جرنیل اسلام محمد بن قاسم کے مجاہدین کی قبور ہیں  سندھ دھرتی کو بابا الاسلام بھی کہا جاتا  ہے اگر سندھ دھرتی سے شراب کے ناپاک محلول کو شہد اور زیتون میں تبدیل کرنے کا فن شرجیل میمن  جیسے فنکار نے ایجاد کر ہی لیا ہے تو اس پر اسے داد دینی چاہیے۔
میں نے اس بحث کو سمیٹے ہوئے کہا کہ ہسپتال میں شرجیل انعام میمن کی سب جیل نما عشرت گاہ پر چھاپہ کسی ائیرے غیرے نے نہیں بلکہ خود چیف جسٹس ثاقب نثار نے مارا تھا  اور شراب کی بوتلوں کی برآمدگی کے بھی وہ خود عینی شاہد ہیں' اور عزب مآب چیف جسٹس کے سامنے شرجیل میمن نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ہاں یہ  شراب ہی ہے... مگر میری نہیں۔
جس بات کے چیف جسٹس خود گواہ ہوں اگر بعد میں انہیں بوتلوں سے شراب گرا کر ان میں زیتون کا تیل اور شہد بھر دیا جائے۔ اس قسم کی مجرمانہ فنکاری کرکے جرم کے ثبوت مٹا بھی دئیے جائیں' تب بھی مجرم پر جرم کا بوجھ بڑھ جاتا ہے' قیدی نواز شریف جیسا تین بار وزیراعظم رہنے والا ہو یا اس کی بیٹی اور داماد' مخالف بھی جانتے ہیں کہ ''ہاں'' حکومت ان کے ساتھ قیدیوں والا سلوک ہی کر رہی ہے  لیکن آخر یہ سندھ میں ایسا کیا ہے کہ شرجیل میمن ہوں' یا دوسرے اس ٹائپ کے بڑے مگرمچھ قیدی  انہیں جیل بھیجا جاتا ہے مگر وہ ربڑ کی گیند کی طرح جیل سے ٹکرا کر واپس ہسپتالوں کی عشرت گاہوں میں پہنچ کر گل چھرے اڑاتے ہیں؟ نواز شریف اڈیالہ جیل کے قیدی رہیں تو قید کی سختیوں کی وجہ سے ان کا وزن تو 15کلو گر جائے... قید کی پابندیوں اور سختیوں کی وجہ سے مریم نواز کو تو پہنچاننا بھی مشکل ہو جائے' مگر شرجیل میمن کا ''قید'' بھی کچھ نہ بگاڑ سکے؟
کوئی وزیراعظم عمران خان سے پوچھے کہ کیا وہ سندھ دھرتی کے وزیرعظم نہیں ہیں؟ جو قانون راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے قیدی ''نواز شریف'' پر لاگو ہوتا ہے' وہ قانون کراچی کی سنٹرل جیل اور لانڈھی کی بچہ جیل کے نیب زدہ قیدیوں پر لاگو کیوں نہیں  ہوتا؟
مجھے نواز شریف یا شریف خاندان سے نہ کوئی دلچسپی  ہے  اور نہ ہی کوئی تعلق واسطہ' لیکن خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ اس طرح احتساب کی یکطرفہ ٹریفک چلانے سے تو عمران خان کے احتساب اور کڑے احتساب کا دعویٰ خود ''بے نقاب'' ہو رہا ہے' ایک طرف وزیراعظم  عمران خان سیکولوں' کالجوں اور مدارس کے یکساں نصاب تعلیم کی بات کر رہے ہیں  اور دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ بدھ 12ستمبر یکم محرم الحرام 1440ھ یوم شہادت سیدنا فاروق اعظم کے موقع پر صوبہ خیبرپختونخواہ میں عام تعطیل تھی  جبکہ زرداری کے سندھ میں یوم شہادت حضرت سیدنا عمر فاروق کے دن چھٹی تو بہت دور کی بات مدح صحابہ کے سلسلے میں جلوس نکالنے پر بھی پابندی تھی سندھ میں خلیفہ ثانی امام عدل و انصاف سیدنا عمر فاروق کا دن منانے پہ پابندی لگانا سندھ حکومت کی سطح پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا؟
اگر  تو عمران خان صرف اسلام آباد ' کے پی کے' پنجاب اور بلوچستان کے وزیراعظم ہیں تو پھر ان سے شکوہ کیا؟ لیکن اگر سندھ بھی  ان کی وزارت اعظمیٰ کے نیچے آتا ہے تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ جن شراب کی بوتلوں کے چیف جسٹس خود گواہ ہیں  وہ شہد اور زیتون کے تیل میں کیسے تبدیل ہوئیں؟
اگر پرویز خٹک کی پچھلی حکومت نے کے پی کے میں حضرت سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے  دن عام تعطیل کا اعلان کیا تھا تو اس درست فیصلے کو بقیہ پاکستان پر لاگو کرنے  میں کون رکاوٹ  ہے؟ جیسے ہی بات ختم ہوئی' میرے دوست نے گاڑی روک دی... اور کہا کہ وہ سامنے چوکنڈی کا تاریخی قبرستان ہے' چلیں قبرستان میں فاتحہ پڑھ کر دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں... اور پھر ہم نے قبرستان کی طرف قدم بڑھا دئیے۔

عسکری تاریخ کے نامور سپہ سالار۔۔۔جلال الدین حقانی

عسکری تاریخ کے نامور سپہ سالار… جلال الدین حقانیؒ
قاری نوید مسعود ہاشمی کے قلم سے
سوچ رہا ہوںکہاں سے شروع کروں۔۔۔1997ء سے کہ جب انہوں نے افغانستان  پر حملہ آور سویت یونین کے خلاف ہاتھوں میں جہادی بندوق تھامی تھی۔۔۔1988 ء سے، کہ جب میں’’ژاور‘‘ میں ان کے مرکز پہنچا تھا۔۔۔ یا1991ء سے، کہ جب اس خاکسار نے ان کی زیر قیادت خوست کو فتح ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
ہم نے سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، محمد بن قاسمؒ، اور امام شاملؒ کو تو نہیں دیکھا۔۔۔ لیکن وقت کے جید علماء، اکابرین اور جہادی کمانڈران ان کو انہی کی طرح سمجھتے تھے۔۔۔ ان کے تقویٰ، عدی للہیت، اسلام اور مسلمانوں سے والہانہ محبت کودیکھ کر ایوبیؒ، قاسمؒ اور امام شاملؒ کی شخصیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا
وہ حق و صداقت کی نشانی، جلال الدین حقانیؒ تھے، اسلام کی عسکری تاریخ کا  ایک ایسا خوف خدا رکھنے والا بہادر جرنیل کہ جس کی مضبوط جہادی ضربوں نے سویت یونین سے لیکر امریکی فوج تک کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیئے۔
اگر میں یہ لکھ دوں کہ جلال الدین حقانیؒ حضرت سیدنا خالد بن ولیدؓ کی جرأت وبہادری کا تسلسل تھے، تو یقینا غلط نہ ہوگا، وہ ایک ایسے بہادر جرنیل تھے کہ مسلسل چالیس سالوں تک میدان جہاد میں ڈٹے رہے۔۔۔ اکثر جہادی معرکوں کی قیادت خود کرتے۔۔۔ ’’سپر پاور‘‘ سویت یونین اور پھر امریکہ جیسی’’ سپر پاور‘‘ نے آپ کو شکست دینے، شہید کرنے یا گرفتار کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے رکھا۔۔۔ لیکن نسبت سیف اللہؓ کی برکت تھی کہ جلال الدین حقانیؒ نے پہلے سویت یونین کا وجود ہی دنیا کے نقشے سے مٹا  ڈالا۔۔۔ اور پھر امریکہ جیسی سپر پاور کوصفر پاور میں تبدیل کر کے۔۔۔ افغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اور پھر اپنی طبعی عمر پوری کر کے رب کے حضور جا پہنچے۔
افسوس کہ مسلمان ملکوں کے حکمران عالمی صہیونی طاقتوں کے غلام ہیں۔۔۔ ورنہ جلال الدین حقانی صرف افغانستان ہی نہیں پاکستان کے بھی محسن تھے۔۔۔ سویت یونین اگر گرم پانیوں تک پہنچنے سے پہلے ہی افغانستان کے کہساروں میں ہی دم توڑ گیا۔۔۔ تو یہ کریڈٹ مولانا حقانی جیسے افغان جرنیلوں کو ہی جاتا ہے۔
جلال الدین حقانی۔۔۔جرأت و غیرت کا استعارہ تھے۔۔۔ یہ اعزاز بھی وہ اپنے ساتھ ہی لئے گئے کہ ان کی جہادی بندوقوں کا رخ کبھی اپنوں کی طرف نہ ہوا۔۔۔ ہمیشہ ان کا نشانہ افغانستان پر حملہ کرنے والے ظالم اور جارح کافر ہی رہے۔۔۔ وہ رحماء بینھم کی عملی تفسیر بنے، تو رب العزت نے پھر ان کی جہادی ضربوں میں ایسی طاقت پیدا کر دی۔۔۔ کہ ضربیں کابل و قندھار میں لگتی تھیں۔۔۔ اور چیخیں واشنگٹن اور نیویارک سے نکلتی تھیں،ظالم  و درندہ صفت گورے منہ بگاڑ، بگاڑ کر جب ’’حقانی نیٹ ورک‘‘،’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی تسبیح پڑھتے  تو یہ جانتے ہوئے بھی روح تک سرشار ہو جاتی کہ حقانی’’نیٹ ورک‘‘ علیحدہ نہیں، بلکہ ملا محمد عمر مجاہد کے افغان طالبان کا ہی حصہ ہے، جلال الدین حقانی سویت یونین کے خلاف جہاد میں مولوی یونس خالص کے عسکری کماندان تھے تو ساتھ ہی افغانستان میں عملی طور پر بر سر پیکار مجاہد کمانڈروں کی مرکزی شوریٰ کے امیر بھی تھے۔
گلبدین حکمت یار ہو، برہان الدین ربانی ہوں، صبغت اللہ مجددی ہوں، استاد سیاف ہوں یا اس زمانے کے دیگر افغان قائدین۔۔۔ آپ کا احترام سب کرتے تھے۔۔۔ کابل کی فتح کے بعد جب گل بدین حکمت یار اوراحمدشاہ  مسعود کے درمیان فساد عروج پر تھا۔۔۔ اور اس فساد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔۔۔سیروبی،جلال آباد، غزنی و ہرات سے لیکر قندھار تک فسادی کمانڈروں نے جگہ، جگہ فسادی آگ  کو بھڑکا رکھا تھا۔۔۔ جلال الدین حقانی نے تب بھی اپنے مجاہدین کو ہر ذاتی ،گروہی جھگڑوں اور اقتدار پرست فسادیوں سے بچائے رکھا، پھر جب امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی شکل میں اللہ نے افغانوں کو نجات دہندہ عطاء فرمایا اور ملا محمد عمرؒ نے افغانستان کو وار لارڈز اور بدمعاش کمانڈروں کے تسلط سے آزاد کروانے کیلئے  جہادی یلغار کی۔۔۔ تو جہاں ایک طرف گلبدین حکمت یار، طالبان کے خوف سے ’’سیروبی‘‘ کی پناہ گاہ سے جوتے چھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہوا، تودوسری طرف جلال الدین حقانی نے اپنے تمام قسم کے اسلحے، سازو سامان اور مجاہدین سمیت امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کے دست حق پرست پر بیعت کر لی، احمد شاہ مسعود، ربانی، ارسلان رحمانی کیسے کیسے نام تھے کہ  جو امریکیوں کی حمایت کے جرم میں مارے گئے۔
گلبدین حکمت یار مخصوص پناہ گاہ سے نکلے تو سیدھے کابل میں امریکی کٹھ پتلی ڈاکٹر اشرف غنی کے دستر خوان پر جا بیٹھے۔۔۔ اشرف غنی کہ جو خود امریکی ڈالروں پر پل رہا ہے۔۔۔ جناب حکمت یار کے لئے’’من و سلویٰ‘‘ کہاں سے آتا ہوگا؟ بوجھوتو جانیں؟
بہرحال، جلال الدین حقانی نہ انا پرستی، نہ غرور، نہ طاقت کا گھمنڈ، انہوں نے جب اپنا ہاتھ ملامحمد عمر مجاہد کے ہاتھ میں دیا تو پھر۔۔۔ ان کی اطاعت کا حق ادا کر دیا۔۔۔ وہ صرف نام کے ’’جلال الدین‘‘ہی نہ تھے بلکہ دینی غیرت کا شاہکار بھی تھے۔۔۔ کمیونسٹ ڈاکٹر نجیب اللہ جس خوست کو لٹل ماسکو کہا کرتا تھا۔۔۔ جلال الدین حقانی کی قیادت میں جب شیر دل مجاہدین نے خوست پر آخری یلغار کی، تو مجھے یاد ہے کہ وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔۔۔ ہم روزہ رکھ کر خوست کو فتح کرنے کیلئے آگے بڑھے تھے۔۔۔ اور پھر افطاری کئے بغیر مسلسل آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔۔۔یہاں تک کہ رات تقریبا ساڑھے 9بجے کے لگ بھگ خوست کے قصبوں، دیہاتوں ، بازاروں اور ایئر پورٹ کا قبضہ لینے کے بعد خوست کے آخری متون قلعے میں گھس چکے تھے۔۔۔ جنرل کمانڈر جلال الدین حقانی کا پیغام ایک،ایک مجاہد کو پہنچایا گیا کہ کوئی مجاہد کسی گھر سے کوئی چیز نہیں لے گا، اپنی عورتوں کو چھوڑ کر فرار ہونے والے روسیوں اور گلم جم ملیشیاء کا تعاقب تو ضرور کیا جائے۔۔۔ مگر گرفتار خواتین کا مکمل احترام کیا جائے گا، کمزوروں،عورتوں اور بچوں پرقطعا ہاتھ نہیں اٹھایا  جائے گا، مولانا عزیز الحق اچھڑیاں والے کہ جن کا گزشتہ دنوں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوا،اللہ ان کی کامل مغفرت فرمائے(آمین) اور حافظ رب نواز جتوئی میرے ساتھے تھے، میںٹھہرا نرا،ایک کالم نگار،صحافی اور یہ تھے غیرت کا شاہکارمجاہد۔۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔۔ متون قلعے کے کونوں، کھدروں میں چھپے ہوئے دشمنوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا۔۔۔ تاآنکہ کسی دشمن خدا کی زڑکئی کی ایک گولی میرے دوست حافظ رب نواز جتوئی کے سینے میں آن لگی، شیردل، مجاہد رب نوازؒ کے سینے سے خون ابلناشروع ہوا، تو وہ لڑکھڑایا، مولانا عزیز الحق نے چھلانگ لگا کر ایک ہاتھ میں گن تھامی اور دوسرے ہاتھ سے اسے سنبھالنے کی کوشش کی، دشمن کی گولیاں ہمارے سروں اور دائیں، بائیں سے گزر رہی تھیں۔۔۔ ہم نے مل کر حافظ رب نواز کو اٹھانے کی کوشش کو تو اس نے یہ کہہ کر ہمیں دھکیلنے کی کوشش کی کہ’’میری فکر چھوڑو۔۔۔ دشمن کا مقابلہ کرو‘‘
دشمن کامقابلہ تو پھر ایسا کیا کہ متون قلعہ بالآخر فتح ہوا۔۔۔ مگر حافظ رب نواز کلمہ طیبہ کا وِرد کرتے ہوئے۔۔۔ شہادت کا جام نوش کر گیا،فتح خوست کی تفصیلات اور آنکھوں دیکھے نصرت خداوندی کے واقعات تو بہت ہیں۔۔۔ مگر آج کے’’قلم تلوار‘‘ کا موضوع قائد ربانی، جلال الدین حقانی ہیں۔۔۔ اس لئے ان تفصیلات کو یہیں چھوڑ کر موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔(باقی آئندہ)
٭…٭…٭

حضرت عمر فارقؓ

مراد رسول ۖ … سیدنا فاروق اعظم
نوید مسعود ہاشمی
وہ دعائے رسولۖ بھی تھے … مراد رسولۖ بھی تھے اور سسر رسولۖ بھی … رسول امین ۖۖ نے انہیں غلاف کعبہ سے لپٹ کر رات کی تنہائیوں میں اپنے رب سے مانگا تھا … پھر جب وہ ایمان لاکر … پیغمبر مصطفی ۖ کی غلامی میں آئے تو لسان نبوتۖ سے آپ کو فاروق  کا لقب عطا ہوا … آپ شجاع تھے ' بہادر تھے ' فن پہلوانی میں یکتا تھے ' فن شہسواری کے امام تھے ' سفارت کاری کے ماہر تھے' ذوق شاعری اور فن خطابت بھی آپ کا طرہ امتیاز تھا … لیکن آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ سچے عاشق رسول ۖ تھے … ایسے عاشق رسولۖ کہ اطاعت رسول ۖ میں جنہوں نے اپنے آپ کو فنا کر دیا تھا … ایمان قبول  کرنے کی خاطر جب دربار نبوت ۖ میںپہنچے تو سیدنا حمزہ کی نظر پڑگئی … تلوار نیام سے نکال کر فرمایا کہ ''اگر غلط ارادے سے  آیا ہے تو کام تمام کردوں گا''… آقاء و مولیٰۖ  نے جب عمر کے چہرے کی طرف دیکھا تو فرمایا ''آنے دو … عمر مراد بن کر آیا ہے
سیدنا عمر فاروق نے محمد کریمۖ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا … محسن انسانیت ۖ نے خوش ہوکر اللہ اکبر کی صدا بلند کی … تب صحابہ کرام نے بھی تکبیر کا نعرہ بلند فرمایا … ایسا بلند کہ جس سے مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں … ایک شاعر نے کیا دلنواز نقشہ پیش کیا ہے کہ
تمہیں یارو مبارک ہو عمر ابن خطاب آیا
خدا سے میں نے مانگا تھا دعائوں کا جواب آیا
وہ آیا ہے تو آنے دو بچھا دو پلکیں راہوں پر
وہ پہلا سا نہیں لگتا کرو نہ شک نگاہوں پر
وہ آیا ہے نہ جانے کو خدا کا انتخاب آیا
سیدنا عمر فاروق مسلمانوں کے حق میں بڑے نرم … اور جارح کافروں پر بڑے سخت تھے … محبوب دو عالم ۖ کے حکم سے سرتابی کی … نہ جرات کرتے تھے … اور نہ ہی برداشت کرتے تھے …
نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے '' ایک اور حدیث رسولۖ ہے کہ اللہ رب العزت نے حق کو عمر کی زبان کے ساتھ رکھ دیا ہے … سو وہ ہمیشہ حق ہی کہتے ہیں …  حضرت ابویسر روایت کرتے ہیں کہ ''حضور اکرمۖ نے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ! اے عمر اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کی خوشخبری سنائی ہے''… حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا ''جس راستے سے عمر گزرتے ہیں … شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر ہولیتا ہے۔''
حضرت نزال فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت علی سے ملے … سیدنا علی المرتضیٰ خوشی و مسرت کی حالت میں تھے … ہم نے عرض کیا اے امیر المومنین!  عمر بن الخطاب کے متعلق کچھ ارشاد فرمایئے … حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے فرمایا کہ عمر بن الخطاب ایسے بزرگ تھے … جن کا نام اللہ کے رسول ۖ نے فاروق (حق و باطل میں فرق کرنے والا) رکھا ہے۔ حضور کریم ۖ سے میں نے سنا ہے کہ آپۖ فرماتے تھے … اے اللہ عمر کے ذریعہ اسلام کو عزت اور غلبہ عطا فرما!
جنگ بدر ہو'  جنگ احد ہو' جنگ خندق ہو' فتح خبیر …یا غزوہ حنین' سیدنا فاروق اعظم ہر غزوہ میں محمد کریمۖ کے جھنڈے تلے … دشمنان اسلام کے خلاف برسر پیکار رہے … اسلام قبول کرنے کے بعد سب سے پہلے … آقاء  مولیٰۖ کی قیادت میں نماز اعلانیہ بیت اللہ میں جاکر پڑھی … مگر مشرکین مکہ کو جرات نہ ہوسکی کہ … وہ بیت اللہ میں نماز کی ادائیگی سے روک سکتے۔
خلیفہ بلافصل حضرت سیدناابوبکرصدیق کی وفات کے بعد … آپ خلیفہ ثانی بنائے گئے … سیدنا فاروق اعظم کا دور اسلام کی شان و شوکت اور فتوحات کا سنہری دور ثابت ہوا۔
آپ نے اپنے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار مربع میل سے زائد علاقے کو فتح کرکے وہاں پرچم اسلام کو لہرایا…عراق ہو ' شام ہو ' دمشق ہو ' حمص' یرموک ' الطاکیہ ہو ' بیت المقدس ہو ' قسیاریہ ہو ' جزیرہ خوزستان ہو ' ایران ہو یا فارس ' کرمان ' سیستان ' مکران' خراسان ' مصر ' اسکندریہ گویا کہ عرب و عجم کے ایک وسیع ترین حصے پر کفریہ طاقتوں کو شکست دے کر مضبوط ترین اسلامی سلطنت قائم کی۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم… محسن عالم محمد کریمۖ کے شاگرد خاص تھے اس لئے … بے لاگ عدل و انصاف آپ کا طرہ امتیاز تھا … جرم کرنے والا کوئی بھی ' کسی بھی خاندان کا کیوں نہ ہو … مگر وہ مجرم کی  شان  یا خاندانی وجاہت کو خاطرمیں لائے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے فرمایا کرتے تھے … حضرت سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں بے شمار کارہائے نمایاں سرانجام دیئے … آپ نے اپنے دور خلافت میں باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیا … اور ملک میں قاضی مقرر کیے ' فوجی ہیڈ کوارٹر بنائے ' دفتر مال قائم کیا ' رقبوں اور سڑکوں  کی پیمائش کروائی ' مردم شماری کروائی ' نہریں کھدوائیں ' غیر مسلم تاجروں کو تجارت کی غرض سے اپنے ملک میں آنے جانے کی سہولتیں مہیا کیں … پولیس  کا محکمہ قائم کیا ' بے روزگار یہودیوں اور عیسائیوں کے وظیفے مقرر کیے … مسجدوں میں روشنی کا انتظام کیا … امام اور موذنوں کے وظائف مقرر کیے ' جیل خانے قائم کیے … فوجی چھائونیاں قائم کیں ' مختلف شہروں میں مہمان خانے قائم کیے … سن ہجری کی ابتداء کی اور اسکا  تعین ہجرت کے سال سے کیا ' یہ قاعدہ مقر ر فرمایا کہ آئندہ اہل عرب غلام نہیں بنائے جائیں گے … نماز تراویح جماعت کے ساتھ قائم کی ' شراب نوشی کی حد اسی کوڑے مقرر کی … عشر کا طریقہ قائم کیا ' جب رعایا سو رہی ہوتی تھی حضرت سیدنا امام عمر راتوں کو گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر کر رعایا کے حالات معلوم کرنے کیلئے گشت کیاکرتے تھے … حضرت سیدنا عمر فاروق کی شخصیت کا کمال دیکھئے کہ … آدھی سے زائد دنیا پر حکمران تھے … مگر اپنی ذاتی حفاظت کیلئے کسی ایک بھی شخص کو باڈی گارڈ کے طور پر رکھنا گوارا فرمایا … میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو باڈی گارڈ ز کے لشکروں … کے پہرے میں دیکھتا ہوں تو یہ سوچتے ہوئے دل تھام کے رہ جاتا ہوں کہ … یہ کیسی بلائیں ہیںکہ جو مسلمان قوم کے گلے آن پڑی ہیں؟
آپ کے قاتل کا نام فیروز تھا … ''ابولولو'' اس کی کنیت تھی … وہ ایران کا مجوسی تھا … سیدنا فاروق اعظم نے جب فجر کی نماز کی امامت شروع کروائی تو بدبخت ''فیروز'' نے زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا … خنجر کے چھ وار سہنے کے بعد … آپ نے گرنے سے قبل اپنے پیچھے کھڑے ہوئے … حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر امامت کیلئے اپنی جگہ پر کھڑا کر دیا … اس نازک صورت حال میں بھی انہوں نے نماز پڑھائی 'بدبخت فیروز لولو اور اس کے … منافق سرپرست تو … خنجر کے وار کرکے … سیدنا فاروق اعظم کے وجود کو مٹانا چاہتے تھے … مگر آج سوا چودہ سو سال بعد بھی … صرف ایک ارب 22 کروڑ مسلمان ہی نہیں بلکہ پانچ ارب کے لگ بھگ کافر بھی یہ بات مانتے ہیں کہ … دنیا میں اگر ایک عمر اور آجاتا تو دنیا کے نقشے سے کفر کانام و نشان ہی مٹ جاتا۔
سیدنا عمر کی عظمت و شان ' رفعت و سربلندی دیکھیئے کہ … روضہ رسول ۖ میں … محمد کریم ۖ کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔ سبحان اللہ
(وما توفیقی الا باللہ)

جیل میں کچھ ہفتے گزارنے کے بعد مریم نواز کے ظاہری حلیے میں کتنی تبدیلی آ چکی ہے ؟ دنگ کر ڈالنے والا احوال سامنے آ گیا














لاہور(ویب ڈیسک)سیاسی قیدیوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والی راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل ان دنوں تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور ان کے ساتھی حنیف عباسی کی میزبان ہے۔ مجھ جیسے صحافیوں کو سیاسی قیدیوں سے
نامور کالم نگار ارشد وحید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔ ملنے کیلئے اسلئے بھی بہت زیادہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس قلم کی صورت میں بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔اڈیالہ جیل میں اسیر باپ بیٹی سے ملاقات کی کوشش میں بھی یہی مفاد کارفرما تھا کہ یہ کھوج لگائی جائے کہ تین بار وزیر اعظم کے منصب پہ فائز رہنے والے نواز شریف اور نازو نعم میں پلی ان کی بیٹی مریم نواز کے جیل میں شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ اس ملاقات کو ممکن بنانے کیلئے ایک با اثر دوست کی خدمات حاصل کیں ۔ ملاقاتیوں کی فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز تک پہنچنے کیلئے اڈیالہ جیل کے گیٹ نمبر پانچ پر گاڑیوں کی طویل قطار میں لگنے سے انتظار گاہ پہنچنے تک کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظار گاہ سے دس سے پندرہ افراد کو گروپوں کی شکل میں دو تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع ملاقات کی جگہ لے جایا جاتا ہے جہاں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر جسمانی تلاشی لینے کے ساتھ آپ کے ہاتھ پرانٹری اسٹیمپ لگائی جاتی ہے۔ راہداری میں داخل ہو کر بالآخر آپ اس ہال میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں ایون فیلڈ پراپرٹیز کے مقدمے میں احتساب عدالت سے دس اور سات سال کی سزا
پانے والے سابق وزیرا عظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ملاقاتیوں کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ میٹنگ روم کی طرز پر قائم اس ہال میں چار قطاروں میں لگی کرسیوں پر تقریباً تیس سے پینتیس افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس میں ایک ایئر کنڈیشن اور دو پنکھے لگائے گئے ہیں، ملاقاتیوں کی نقل و حرکت کی مانیٹرنگ کیلئے کلوز سرکٹ کیمرے بھی دکھائی دیتے ہیں جبکہ قیدیوں اور ملاقاتیوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سننے کیلئے متعلقہ عملہ بھی ارد گرد ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اونچی آواز میں صرف غیر سیاسی گفتگو ہی کی جا سکتی ہے۔ ہال میں داخل ہونے پرمیاں صاحب نے قلم کار کو خصوصی عزت دیتے ہوئے مریم نواز کی قریبی نشست پر بیٹھنے کا کہا جس سے مریم نواز اور میاں صاحب سے دبے لفظوں میں طویل گفتگو کا موقع مل گیا۔ ایفی ڈرین کیس میں سزا پانے والے حنیف عباسی جیل میں بھی اپنے مخصوص پرتپاک انداز میں بغل گیر ہوئے۔ ہال میں مریم اورنگزیب، محمد زبیر، جاوید لطیف، شیخ آفتاب،بلیغ الرحمان، زیب جعفر،ثانیہ عاشق ، زیب النساء اور دیگر لیگی رہنما اور تین چار کارکنان بھی اپنے قائد اور ان کی بیٹی کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے نظر آئے۔ نواز شریف
اور مریم نواز کے وزن میں نمایاں کمی کو دیکھ کرجیل کے شب وروز کا اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن باپ بیٹی استفسار کے باوجود کوئی حرف شکایت زبان پرنہ لائے۔ مروت کے قائل نواز شریف ہر ملاقاتی سے کھڑے ہو کر سلام دعا کرتے جبکہ ان کی طرف سے یک جہتی کا اظہار کرنے پر خود ان کی ہمت بندھاتے اور ملاقاتیوں سے صرف دعا کرنے کی درخواست کرتے۔نواز شریف کے ہاتھ میں چھوٹی تسبیح تھی جبکہ وہ آسمانی رنگ کی اپنی پسندیدہ شلوار قمیص میں ملبوس تھے جس کی سامنے والی جیب میں لگی عینک دیکھ کر مجھے 1999ءمیں لانڈھی جیل میں بطور قیدی ان کا اندراج کرتے سپرنٹنڈنٹ جیل کا وہ تضحیک آمیز جملہ یاد آ گیا جب اس نے نواز شریف کی جیب میں لگے پین کو دیکھ کر ادا کیا تھا۔ تب والی غلطی انیس سال بعد ضد بن کر نواز شریف کو پھر اسی مقام پر لے آئی ہے تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ تب وہ اٹک قلعے کی صعوبتوں ،لانڈھی جیل کی تضحیک اور ہتھکڑیوں سے باندھ کر کراچی کی خصوصی عدالت میں پیشی جیسے تحقیر آمیز سلوک کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے آمر پرویز مشرف سے دس سالہ جلا وطنی کا معاہدہ کر کے جدہ روانہ ہو گئے تھے
تاہم اس بار جیل اور اسیری کی کٹھن بھری زندگی کا راستہ انہوں نے خود چنا ہے۔ تب وہ بطور باپ وزیر اعظم ہاؤس سے اپنے ساتھ حراست میں لئے گئے اپنے بیٹے حسین نواز کیلئے فکر مند تھے توآج انہیں ساتھ سزا کاٹنے والی اپنی بیٹی مریم نواز کو دیکھ کر پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔تاریخ کے اس دہرائے جانےکے بارے میں،میں نے مریم سے استفسار کیا کہ کیا خود احتسابی کے دوران باور ہوا کہ اس ہونی کو روکا جا سکتا تھا توایک توقف کے بعد ٹھوس لہجے میں نفی میں جواب دیتے انہوں نے کہا کہ وہ کچھ بھی کر لیتے ہونا یہی تھا کیونکہ کرنیوالے ،طے کر چکے تھے۔ اپنی ضمانت پر رہائی کے بارے میں باپ بیٹی بدستور بے یقینی کا شکار نظر آئے لیکن اپنے مقصد کو پانے کا عزم ایسا غیرمتزلزل کہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ بطور انسان دونوں صرف نازک رشتوں کے باعث کمزور پڑتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں زیر علاج اپنی اہلیہ کے ذکر پر نواز شریف متفکر اور بطور بیٹی اپنی والدہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز کی آواز رندھ جاتی ہے اور وہ کوشش کرتی ہیں کہ آنسو ان کی آنکھوں سے باہرنہ چھلکنے پائیں۔
مریم نواز نے بتایا کہ ان کے دل پر صرف ایک بوجھ ہے کہ ان کی والدہ کلثوم نواز سوچتی ہیں کہ ہر روز ان سے ویڈیو کال پر بات کرنے والی ان کی بیٹی سیاسی زندگی میں اتنی مصروف ہو گئی ہے کہ اب ہفتے میں صرف ایک دن چند منٹ کیلئے ان کا حال پوچھنے کیلئے کال کرتی ہے۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ ہفتے میں صرف ایک دن 20منٹ کیلئے جیل کے پی سی او سے ٹیلی فون کر سکتے ہیں اور براستہ لاہور لائن ملنے سے اس میں سے بھی تین چار منٹ صرف ہوجاتے ہیں۔ ان کیلئے عید الضحی پر میاں صاحب کی والدہ ( آپی جی) کی جیل میں ان سے ملاقات کو یاد کرنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جب وہ جیل میں بیٹے اور پوتی سے ملیں تو پوری جیل میں ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ بیٹے اور پوتی کو جیل میں چھوڑ کر واپس جانے کیلئے بھی تیار نہ تھیں اور بضد تھیں کہ ان کیساتھ ہی رہیں گی۔ جب روتی ہوئی والدہ کوزبردستی واپس بھیجا جا رہا تھا تو تب بیٹے کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ میاں صاحب سے معلوم ہوا کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اورباپ بیٹی کو ایک دوسرے سے صرف اتوار کو ملاقات کرنے کی اجازت ہے جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
مریم نواز نے بچوں کو پڑھانیکی تردید کی اور واضح کیا کہ ان کی اور میاں صاحب کی بیرک میں چھ ، چھ کمرے ہیں جن میں سے ایک ایک میں وہ رہتے ہیں باقی تمام خالی ہیں اور مغرب کے وقت بیرک کو لاک کر دیا جاتا ہے جو صبح فجر کے وقت کھولاجاتا ہے اس لئے کسی سے بات چیت تک نہیں ہوتی۔ انہیں جنگ اور ایک دوسرا اردو اخبار پڑھنے کو ملتا ہے جبکہ اسیری کے دوران وہ عبادت کے علاوہ تاریخ اور اہم سیاسی رہنماؤں کی زندگی کا مطالعہ کرنے میں وقت صرف کرتی ہیں۔ ان سے یادداشتیں قلمبند کرنے کے بارے میں پوچھا تو مریم نواز نے جواب دیا کہ کتابیں پڑھنے کے دوران نوٹس لینے کیلئے وہ کاغذ قلم مانگتی ہیں تو بہت تردد کے بعد انہیں نمبر لگا کر پرچیاں دی جاتی ہیں۔ دوران گفتگو ایک موقع پر خواجہ آصف نے ایک چٹ پر لکھی بنی اسرائیل کی سورت کی ایک آیت میاں صاحب کو وظیفہ کرنے کیلئے تھمائی جنہوں نے ابتدائی الفاظ ادا کئے تو مریم نواز نے پوری آیت سنا دی۔باپ بیٹی کی اسیری کی زندگی کے مزید پہلو وا کرنے کیلئے میرے سوالات جاری تھے کہ ہال میں مریم نواز کی بیٹیاں مہرو اور ماہ نور داخل ہو گئیں جن کے بارے میں وہ بتا چکی تھیں کہ جیل میں وہ سب سے شدت سے انہیں مس کرتی ہیں۔ واپسی کیلئے ہال سے باہر آیا تو راہداری میں کیپٹن صفدر سے آمنا سامنا ہو گیا جو بیماری کے باعث انتہائی نحیف ہو چکے ہیں۔ انکی خیریت معلوم کرنے کے بعد جب اڈیالہ جیل کی اونچی فصیلوں سے باہر نکل رہا تھا تو میرے کانوں میں سورۃ آل عمران کے یہ الفاظ گونج رہے تھے ؛ اور یہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں

استین کے سانپ

ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺳﺎﻧﭗ ﭘﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍُﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮭﻼﺗﯽ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩﮦ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻧﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﯽ ﺩُﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮔﻮﺷﺖ ﻻﺗﯽ۔ ﺳﺎﻧﭗ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﻣﺎﻧﻮﺱ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﮭﻠﮯ ﻋﺎﻡ ﭘﻮﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ، ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﻮﺋﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍُﺳﮑﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺲ ﺟﺎﺗﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻧﭗ ﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﯾﺎ ﮈﺭ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﻗﺖ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺳﺎﻧﭗ ﺍﯾﮏ ﺩﮨﺸﺖ ﻧﺎﮎ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﮐﺎ ﺭﻭﭖ ﺩﮬﺎﺭ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍُﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﺩِﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﺎ ﮐﺮ ﺩﮨﺸﺖ ﺯﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ، ﺩﻭ ﺩِﻥ، ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮧ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ، ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﯾﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﻭﮦ ﺍُﺳﮯ ﻣﻨﮧ ﺗﮏ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﺗﺎ، ﺁﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﺩِﻥ ﻋﻮﺭﺕ ﺍُﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﮯ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﺍﮊﺩﮬﮯ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩِﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ، " ﮐﯿﺎ ﺍِﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ؟ " ، ﻋﻮﺭﺕ ﺑﻮﻟﯽ، " ﮨﺎﮞ ﻭﮦ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔۔۔ "! ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ، " ﮐﯿﺎ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ؟ " ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، " ﮨﺎﮞ، ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﮔﮭﺲ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔ "!
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﮐﮩﺎ، " ﻣﯿﮉﻡ ! ﺁﭘﮑﺎ ﯾﮧ ﻻﮈﻻ ﺍﮊﺩﮬﺎ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﯾﮧ ﺍﺏ ﺁﭘﮑﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺪﺭﺕ ﻧﮯ ﺳﺎﻧﭗ ﺍﻭﺭ ﺍﮊﺩﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮈﺍﻟﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮍﮮ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﯾﺎ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﻮ ﺍُﺳﮯ ﮨﻀﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ، ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﮯ ﺍِﺱ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﺍﮊﺩﮬﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﮐﭽﮫ ﺩِﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﭘﯿﺎ، ﻟﮩٰﺬﺍ ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ، ﺍِﺱ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﮑﺎﺭﺍ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ۔۔۔ "!
ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺍِﺱ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺒﻖ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺩﺷﻤﻦ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮐﺮ ﻭﺍﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍُﺳﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﺩﺷﻤﻦ ﺁﺳﺘﯿﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﭗ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﻣﻨﮉﻻﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺳﮑﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺳﺎﺯﺵ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ، ﺍﯾﺴﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﺮ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﮑﺎﺭﺍ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ، ﺍِﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﮨﮯ۔۔۔ !

جنرل ضیاء کا قتل کتنی بڑی سازش تھی اور اس کے پیچھے کون کون تھا؟


سترہ اگست کی شام چار بجے بہالپور ائرپورٹ کے نزدیک اسلام کا ایک عظیم خادم، ملت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر سپاہی، ایک عالمی مدبر، ایک سچا مسلمان اور شریف انسان ضیاء الحق اپنے 26 پاکستانی فوجی رفقاء اور 2 امریکی سفیروں کے ساتھ ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگیا جس کے دہشت گردانہ کاروائی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

سی 130 ہرکولیس طیارہ اپنے چار طاقتور انجنوں اور اپنی ساخت کے اعتبار سے ایک ایسا طیارہ ہے جو ہوائی اڈے کے اتنے قریب اور زمین سے صرف تین چار منٹ کے مرحلہ میں طے ہونے والی بلندی پر حادثے کا شکار ہو ہی نہیں سکتا۔ سوائے اس کے کہ پائیلٹس کو بے ہوش یا ہلاک کر دیا جائے۔

یہی پاکستان ائر فورس کی تحقیقاتی کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا۔

لیکن کیا واقعی جنرل ضیاء کسی سازش کو شکار ہوا تھا؟ 
اور اگر سازش تھی تو اس سازش میں کون کون شریک تھے؟؟

آئیے وقت کی گرد جھاڑ کر دوبارہ اس وقت رونما ہونے والے واقعات کو ترتیب وار دیکھتے ہیں۔

٭ یہ کام جتنا مشکل تھا اور جہاں جہاں تک اس کے لیے رسائی درکار تھی اور جس مہارت سے کیا گیا اور جتنے بڑے پیمانے پر اس کے تحقیقات رکوائی گئیں یہ کسی ایک فرد یا تنظیم کا کام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی پشت پر یقیناً بہت بڑی بڑی طاقتیں تھیں۔

٭ جہازوں میں فٹ کر کے ہوابازون کو بے ہوش کرنے کیسپول اور ان کو ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی ان دنوں صرف روس، امریکہ اور اسرائیل کے پاس تھی۔

٭ جنرل ضیاء کے قتل کا شبہ پانچ تنظمیوں پر کیا گیا جن میں روس کی کے جی بی، امریکہ کی سی آئی اے، بھارت کی راء، اسرائیل کی موساد اور پاکستان سے الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم شامل تھی۔

٭ بہاولپور کے قریب امریکی ٹینک کی کارکردگی کے مظاہرے کا اہتمام بھی امریکی فرمائش پر ہی کیا گیا تھا۔ جسے دیکھنے جنرل ضیاء نے جانا تھا۔

٭ بہالپور میں جہاں یہ حادثہ پیش آیا۔ طیارے کو ہوائی اڈے پر غیر ضروری طور پر کھڑا رکھا گیا حالانکہ اسے صدر پاکستان کو پہنچانے کے بعد فوری طور پر اپنے اڈے پر واپس چلا جانا تھا اور واپسی کے لیے دوبارہ واپس آنا تھا۔

٭ ہوائی اڈے پر سیکیورٹی انتظام صدر کے سیکیورٹی عملہ یا مرکزی فوجی اداروں کے بجائے مقامی حکام ہی کے ذمہ رکھا گیا۔

٭ بہاولپور کے مئیر اور پیپلز پارٹی کے فوری وفاقی وزیر بنائے جانے والے مسٹر فاروق اعظم نے آموں کی پیٹیاں بظاہر تحفے کے طور پر دیں۔ ان پیٹیوں کو کسی سیکورٹی چیک کے بغیر طیارے میں رکھا گیا۔

٭ طیارے کو رن وے ر کھڑا رکھنے کے پراسرار عمل پر مستزاد کچھ سول اور غیر متعلقہ افراد کو دروزے کی مرمت یا ردوبدل کے کام پر طیارے میں داخل ہونے اور نامعلوم قسم کے آلات کے ساتھ کچھ کام کرتے رہنے کی اجازدی دی گئی جبکہ جہاز کے عملہ یعنی ہوابازوں میں سے کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا۔

خیال رہے کہ جہاز کا خودکار دروازہ ہواز باز کے اپنے کنٹرول پینل سے وابستہ ایک چیز ہے جس کے تاروں یا نالیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنا جہاز کے ہوابازی کے مجموعی نظام میں خرابی پیدا کرنے کا سبب ہوسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر جہاز کو کسی مرمت کی ضروت تھی بھی تو وہ اصولاً چکلالہ میں ہونی چاہئے تھی۔

٭ جہاز کے عملے میں شامل ایک ٹیکنیشن کو ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہاولپور میں اپنے رشتہ داروں یا واقف کاروں کے گھر جانے کی اجازت دی گئی۔

٭ حادثے کے بعد جب طیارے کا ملبہ جل رہا تھا تو آگ بجھانے لے لیے کوئی کاروائی نہیں کی گئی نہ بہاولپور ائیر پورٹ سے نہ کسی میونسپل کارپوریشن سے کوئی آگے بجھانے والا عملہ روانہ ہوا اور نہ ہی دیہاتیوں کو آگ بجھانے کے لیے طیارے کے قریب جانے کی اجازت دی گئی۔

٭ جانبحق ہونے والوں کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ پوسٹ مارٹم طارق بشیر چیمہ نامی شخص کے حکم پر روکا گیا جس کا بھائی فوراً بعد پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنا۔ جو کاغذات ایف آئی اے نے واپس نہیں کیے ان میں یہ بھی درج تھا کہ طارق بشیر چیمہ الذوالفقار سے وابستہ رہا تھا۔

٭ کسی نے اس بات کا بھی سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ دو بچے اور ایک خاتوں جو اس طیارے میں چک لالہ سے بہاولپور آئے تھے کون تھے اور کس کی اجازت سے اس طیارے میں سوار ہوئے تھے؟
یہ معاملہ اس لحاظ سے اہم بتایا جاتا ہے کہ اس طرح شائد غیر متعلقہ افراد کو طیارے میں داخل کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا۔

٭ ان تحقیقات سے آئی ایس آئی کو کیوں الگ رکھا گیا؟ حالانکہ آئی ایس آئی کے پاس اس حادثے کے حوالے سے سب سے مشکوک تنظیم الذولفقار کے بارے میں بہترین معلومات تھیں۔

٭ بہاولپور میں موجود فوجی عملہ کو جدل از جدل وہان سے مختلف مقامات پر تبدیل کر دیا گیا۔

٭ حادثہ کے روز کرنل اعجاز نے صدر مملکت کی تقریبات کی پرائیویٹ فلم تیار کی تھی لیکن ان کا تبادلہ ہونے کی وجہ سے ان سے یہ فلم دسیتاب نہ ہوسکی۔ ریڈیو پاکستان نے جو ریکارڈنگ کی تھی اس کی ٹیپ بھی پولیس کو نہ ملی۔

٭ ایف آئی اے 15 ستمبر سے 10 دسمبر تک تحقیقات کرتی رہی اور پولیس کو اپنی رپورٹ مسلسل ارسال کرتی رہی۔ پھر اس نے نہ صرف اچانک تحقیقات روک دیں بلکہ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ بھی واپس کرنے سے انکار کر دیا۔

٭ پولیس کو جو رپورٹ واپس نہیں مل رہی تھی اس کے مطابق الذولفقار کے کمانڈر مرتضی بھٹو مارچ 88ء میں بھارت کی طرف سے سرحد عبور کر کے پاکستان آیا اور بہاولپور شہر پہنچا۔ اس کے ساتھ الذولفقار کا سرگرم کارکن پرویز عرف پیجی بھی تھا۔ انہیں مرحوم اصغر گھرکی کے ایک عزیز نے سرحد عبور کرنے میں مدد دی۔

بہاولپور میں ان کا قیام جن ہوٹلوں میں ہوا ان میں باہر سے آئے ہوئے کچھ لوگ بھی ٹہرے تھے۔ آنے والوں کا تعلق بھارت سے بتایا جاتا ہے۔

٭ صدر غلام اسحاق خان نے اس حادثے کی تحقیقات کی ذمہ داری فتح خان بندیال کے ذمے لگائی اور اس کو تمام تحقیقاتی اداروں کے درمیان کوارڈینیٹر مقرر کیا۔ آنے والی پیپلز پارٹی حکومت نے فوری طور پر اس کو وہاں سے ہٹا کر سٹیل مل کا چیرمین لگا دیا۔ جس کے بعد فتح خان بندیال اور اس کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں گئی۔

٭ لودھران پولیس تھانہ میں درج پولیس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جو 523 صفحاف پر مشتمل تھی ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لے لی اور دوبارہ مانگنے پر بھی واپس نہیں کی۔ جس کے بعد پولیس اس کیس پر مزید کوئی کام نہ کر سکی۔

٭ اس حادثے میں صدر ضیاء کے علاوہ مسلح افواج کے 26 افراد شہید ہوئے بشمول چیرمین چیفس آف سٹاف اور افغان جہاد کے ہیرو جنرل اختر عبدالرحمن۔

مسلح افواج کے سربراہ، اس کے ممکنہ جانشین اور چار دیگر جرنیلوں کے علاوہ چار برگیڈیرز اور کئی اعلی افسروں کی شہادت سے متعلق دہشت گردانہ کاروائی کی تحقیقات کو کیوں اور کیسے نظر انداز کر دیا گیا؟

اگر یہ کہا جائے تو کہ پیپلز پارٹی حکومت ضیاء مخالف تھی تب تو یہ تحقیقات اور بھی ضروری تھیں تاکہ وہ خود کو پاک ثابت کر سکیں۔

عدم دلچسپی کی صرف ایک ممکنہ صورت ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کو معلوم تھا کہ سازش کے ذمہ دار کون لوگ ہیں اور تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

اس مفروضے کا پیپلز پارٹی کا سابقہ ریکارڈ بھی تقویت دیتا ہے۔ اسی پارٹی نے اپنے مخالفین بشمول وزیراعلی سرحد حیات محمد خان شیرپاؤ کی دھماکہ میں پراسرار موت، عبدالصمد اچکزئی، خواجہ محمد رفیق، ڈاکٹر نزیر احمد اور نواب محمد احمد خان جیسی شخصیتوں کے قتل کی بھی تحقیقات نہیں ہونے دیں جن کا شبہ خود اسی جماعت پر تھا۔ مقتولوں میں صرف ایک شخص نواب احمد خان کے قتل کی تحقیقات کرائی گئیں جس کے نتیجہ میں بلااخر بھٹو پھانسی چڑھا۔

٭ اس وقت پیپلز پارٹی کی دہشت گرد تنظیم الذولفقار پوری طرح ایکٹیو تھی۔ 
حادثے کے فوراً بعد الذوالفقار کے ایک ترجمان نے " یہ ہمارا ہی کام ہے" کا نعرہ لگایا تھا لیکن پھر پیپلز پارتی کے انتخاب کے خیال سے یہ نعرہ واپس لیا گیا۔ لیکن اس سے بھی پہلے چار پانچ ناکام حملوں کا کریڈیٹ لیتے رہے ہیں۔ جن میں سے دو وارداتوں کا تذکرہ بے نظیر نے اپنی کتاب " دختر مشرق" میں بھی کیا ہے۔

٭ روس کی طرف سے بیان آیا کہ " اس معاملے میں روس کو بلاوجہ ملوث کیا جا رہا ہے۔ ایسی تخریبی کاروائیوں کے ذریعے ممتاز شخصیات کو قتل کرانا ہمارا طریقہ نہیں۔ یہ کام سی آئی اے والے کرتے ہیں اور انہیں اکا تجربہ بھی ہے اور ضرورت بھی رہتی ہے "

٭ سب سے حیران کن کردار امریکہ کا تھا جو مسلسل تحقیقات کو بے معنی بنانے اور معاملہ رفع دفع کرنے میں مصروف نظر آیا۔ حالانکہ اس کے ملک کا سفیر اور ایک اعلی فوجی افسر اس حادثے میں ہلاک ہوا تھا۔

امریکہ کے اس رویے پر جون 89ء خود امریکی کانگریس کی جرائم سے متعلق کمیٹی نے 17 اگست کے حادثے اور اس میں امریکی سفیر اور برگیڈیر کی ہلاکت کے حوالے سے اس بات کی تحقیقات شروع کی کہ "قانون کے مطابق ایف بی آئی نے کیوں اس معاملے کی تفتیش نہ کی؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس کی یہ تحقیقات بھی روک دی گئیں۔ ۔

حالانکہ پاکستانی ائر فورس کا تحقیقات کمیشن اس کو دہشت گردی قرار دے چکا تھا لیکن امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایف بی آئی کو اس کے بعد بھی پاکستان بھیجنے کی اجازت نہ دی۔ کیوں؟

بعد میں یہ خبریں بھی آئیں کہ امریکی سنٹرل کمانڈ نے تحقیقات ٹیم بھیجنے پر اعتراض کیا تھا۔

٭ سب سے اہم معاملہ انڈیا میں تعئینات امریکی سفیر گنٹر ڈین کا رہا۔ 
جان گنٹر ڈین نے بتایا کہ 1988 میں جب جنرل ضیا کے طیارے کا حادثہ ہوا، وہ انڈیا میں امریکہ کے سفیر تھے۔ کہنے لگے اسے یہودیوں نے مارا۔

انھوں نے کہا، موساد نے اور میں یہ پورے یقین سے کہہ رہا ہوں اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں خود بھی یہودی ہوں۔

اگست 1988 میں جب جنرل ضیا کے طیارے کو حادثہ پیش آیا تو جان گنٹر ڈین نے بھی دیگر سفارتکاروں کی طرح ٹوہ لینے کی کوشش کی کہ یہ کس کا کام ہے۔ انھیں جو معلومات ملیں وہ اتنی حساس تھیں کہ جان گنٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ دلی سے واشنگٹن تک مواصلاتی رابطے سے نہیں بھیجی جا سکتیں۔
انھوں نے واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے بڑوں سے اپائنٹمنٹ لی، ٹکٹ کٹوایا اور سیدھے اپنے ہیڈکوارٹر پہنچے۔ وہاں انھوں نے اوپر والی ساری کہانی سنائی۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے اس ملاقات میں نہ صرف انھیں سفیر کے عہدے سے نااہل قرار دیا بلکہ یہ فتویٰ بھی دیا کہ گنٹر کے دماغ میں کچھ خلل ہے اور وہ فوراً ریٹائر کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی 20 سال تک ان پر زباں بندی کا حکم بھی جاری ہوا کہ نہ کوئی بیان دیں گے، نہ انٹرویو اور نہ ہی اس پورے معاملے پر کچھ لکھیں گے۔

جنرل ضیاء کو کیوں قتل کیا گیا؟

کیونکہ وہ روس کے نکل جانے کے بعد افغانستان اور ایران کے ساتھ ملکر ایک اسلامی بلاک بنانے کے بہت قریب تھا۔

پاکستان وہ بتدریج اسلام نافذ کر رہا تھا۔ 
افغانستان میں مجاہدین کی ایک اسلامی حکومت بننی یقینی تھی۔ 
ایران میں اسلامی انقلاب آچکا تھا۔ 
وسطی ایشائی ریاستیں روس سے آزادی کے قریب تھیں جن کے بعد ان کا جھکاؤ فوری طور پر اپنے محسن پاکستان کی طرف ہوتا۔ 
اور ترکی پاکستان کے قریب تر تھا۔

ضیاء کا خیال تھا کہ ان تمام ممالک کی کرنسی، خارجہ پالیسی اور دفاع کو ایک کیا جائے۔

امریکہ کے سٹریٹیجک ماہرین اور مدبرین افغانستان، ایران اور پاکستان میں اٹھتے اس اسلامی طوفان اور ترکی کی پاکستان سے قربت وسطی ایشیائی ریاستوں کی روس کے ہاتھوں سے نکلنے کے بعد پاکستان کے قریب ہونے کے خدشات کی وجہ سے ایک نہایت خطرناک بلاک بنتا دیکھ رہے تھے۔

اس کو روکنے کا طریقہ سوائے جنرل ضیاء کے قتل کے اور کوئی نہ تھا۔ نہ صرف ضیاء کا قتل بلکہ اس کے بعد اس کے کام کو جاری رکھنے کے اہل اس کے جانشینوں کا قتل بھی۔

امریکہ ضیاء سے اپنی دوستی کی وجہ سے خود سامنے نہیں آنا چاہتا تو اس کے لیے بہترین آلہ کار انڈیا کی را اور اسرائیلی موساد ہی ہوسکتی تھی۔

راجیو گاندھی جانتا تھا کہ ضیاء افغانستان سے فارغ ہوکر کشمیر کو بہت تیزی سے آزاد کروا دے گا۔ وہ یہ بیان بھی دے چکا تھا کہ ہم افغانستان میں کوئی اسلامی حکومت برداشت نہیں کرینگے۔

موساد تو پاکستان کی ازلی دشمن تھی ہی۔

الذولفقار کے رابطے قادییانیوں کی معرفت جن کا آپریشنل ہیڈ کواٹر تل ابیب ہی میں ہے اسرائیل سے تھے۔

ضیاء کو اطلاع مل چکی تھی کہ اس پر وار ہونے والا ہے۔ اس کے مشیر اس کو چند دن کے لیے مکہ یا مدینہ جانے کا مشورہ دے رہے تھے۔ ضیاء کو یہ بھی خدشہ تھا کہ یہ امریکہ کرے گا!

اس سفر میں بھی یہ خطرہ درپیش تھا۔ اس لیے جنرل ضیاء نے امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور حاضر سروس برگیڈیر کو ساتھ لے لیا حفاظتی تدبیر کے طور پر۔

لیکن امریکہ ضیاء کو ہٹانے کے لیے ہر قربانی دینے پر تلا ہوا تھا۔

افسوس آنے والی پاکستانی حکومتوں پر ہے جنہوں نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی کہ تاریخ کے اس انتہائی نازک موقعے پر جب افغان جہاد کامیابی کے قریب تھا اور پاکستان افغانستان کے معاملات اپنے حق میں موڑنے والا تھا جنرل ضیاء اور اس کے افغان امور کے ماہر ساتھیوں کو کس نے شہید کروایا؟؟ جس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے!!

عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی اندرون بیرون ملک پاکستان میں واضح تبدیلی ،’’کپتان‘‘ پر کڑا وقت آنے والا ہے لیکن ۔۔۔! بڑا دعویٰ کردیاگیا

راولپنڈی پاکستان تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے کہا ہے کہ عمران خا ک
کے وزیر اعظم بننے سے قبل ہی اندرون بیرون ملک پاکستان میں واضح تبدیلی محسوس کی جارہی 
ہے الیکشن جیتنا آسان تھا لیکن 100دن کے اندر اہداف حاصل کرنا مشکل کام ہے عمران خان پر کڑا وقت آنے والا ہے لیکن اگر یوتھ ہمارے شانہ بشانہ رہی تو تمام اہداف حاصل کر لیں گے آنے والے وقت میں پاکستان میں نوجوان بااختیار اور طاقتور ہوں گےنوجوانوں کے عالمی دن کے موقع پر گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے زلفی
بخاری نے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ عمران خان جیسا لیڈر ہمارے پاس ہے عمران خان کے خلاف اب غیر ملکی عناصر نے سازشیں شروع کر دی عمران خان کسی صورت میں اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرینگے جب قیادت کرپٹ نہ ہو تو نچلے طبقے میں کرپشن نہایت کم ہو جاتی ہے الیکشن جیتنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا 100 دن میں اپنا ہدف حاصل کرنا ہے ابھی حکومت بنی نہیں لوگ فوری تبدیلی چاہتے ہیں 2018 کا الیکشن خواتین اور نوجوانوں کی وجہ سے انقلابی الیکشن ثابت ہوا ہے اگلے 5 سال نوجوانوں کا وقت ہو گاانہوں نے کہا کہ عوام نے الیکٹیبلز کو قبول نہیں کیا ہم جو الیکٹیبلز لائے وہ بری طرح ہارے عمران خان کی الیکشن میں کامیابی پر چند ممالک کے اخبارات میں تنقید کی گئی عمران خان کی کامیابی کو فوج سے جوڑنے کے کوشش کی گئی اگر فوج کا ہاتھ ہے تو عمران خان مشرف سے زیادہ طاقتور نہیں تھا مشرف کو بھی ایم ایم اے سے ملکر حکومت بنانا پڑی ہماری حکومت مڈل کلاس کو مضبوط کرے گی تنقید کا مقصد پاکستان کو ترقی کے راستے سے روکنا ہے کچھ ممالک پاکستان کو دہشت گردی غربت کے شکنجے میں دیکھنا چاہتے ہیں امریکہ میں اسلام فوبیا ہے مگر لندن میں ایسا نہیں پوری دنیا عمران خان کے خلاف ہے خان پر سخت وقت آنے والا ہے ہمیں نوجوانوں کی طاقت اور مدد چاہئے ہو گی پہلے یوتھ کے لئے لیڈر شپ نہیں تھی اب لیڈر شپ مل گئی ہے جتنی مخالفت ہوگیہماری یوتھ اتنی اوپر آئے گی یوتھ کی انوالمنٹ ہر ادارے میں ہوتی ہے، یوتھ کو نیشن بلڈنگ میں خود کو منوانا چاہئے بہت کم ممالک میں نوجوانوں کی اتنی آبادی نہیں ہے جتنی ہمارے ملک میں ہے، اگر اوپر ایماندار انسان بیٹھا ہو تو نیچے کرپشن نہیں ہوگی، ڈاکو کو پکڑا نہ جائے تو وہ ہر رات ڈاکا مارے گا،عمران خان ایسے پلیئر ہیں جو ہر مقبول ہو گادوسرے ملکوں سے پاکستان میں کاروبار کے لئے لوگ رابطے کر رہے ہیں سی پیک اور دوسرے منصوبوں کے لئے لیبر ہماری ہونی چاہئے

محمد عبداللہ کے قلم سے

"لاش کے ساتھ سحری"


اے سی کی ٹھنڈک میں نرم و گرم بستروں پر لیٹ کر، شاندار سجے آفس میں بیٹھ کر اپنے لیپ ٹاپ، اپنے اینڈرائڈ کی اسکرین پر فوج کو گالیاں دینا، ان پر لطائف بنانا، ان کی قربانیوں کا مضحکہ انگیز تذکرہ کرنا، ان کے کردار کو مشکوک بنانا، ان کے دین و ایمان پر سوال اٹھانا
ہاں میرے سائبر وارئیرز یہ کام بہت آسان ہے. دہشت گردی کے پیچھے وردی جیسے جملے لکھنا اور بولنا بہت آسان ہے. فوجی ہمارے نوکر ہیں جیسے الفاظ کہنا بہت ہی آسانی والا کام ہے. مگر جانتے ہیں کہ خود ان فوج والوں پر کیا بیتتی ہے، ان کے گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟
رمضان کی پہلی سحری ہے سبھی نے اپنے گھروں میں اپنے والدین، اپنے اہل و عیال کے ساتھ سحری کی ہوگی مگر ایک گھر کی سحری ایسی بھی ہے کہ جس میں بیوی کا شوہر تو موجود ہے، بچوں کا والد تو موجود ہے مگر ایک لاش کی صورت .....
دے سکتے ہو ایسی قربانی؟
جی زیر نظر تصویر ملٹری انٹیلینس کے کرنل سہیل عابد شہید کی ہے جو گزشتہ روز بلوچستان کے ریگزاروں میں دفاع وطن کے لیے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر گئے...
آج سحری میں جب ان کے گھر میں ان کے پیارے، ان کے بابا، ان کے مجازی خدا، ان کے بڑھاپے کے توانا سہارے، ان کے جگر کے ٹکڑے کی لاش سامنے رکھی ہوگی تو خون کی سحری کرتے ہوئے ان کی کیفیات کیا ہونگی؟
ایسے میں اچانک سے ان کے سامنے یہ فقرہ آجائے کہ دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے تو کیا حشر ہوگا ان ورثاء شہید کا؟
کرنل سہیل عابد شہید دہشت گردوں سے اس لیے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے کہ ان کے وطن کا نوجوان سو حفاظتی حصاروں میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اسی فوج کے خلاف اسٹیٹس دے سکے، اسی فوج کے خلاف ٹویٹس کرسکےـ
دہشت گردی کے پیچھے فوج جیسے گندے اور غلیظ نعرے لکھ سکے....
جانتے ہو جب تیرا یہ ایک اسٹیٹس کرنل سہیل عابد کے بچوں کی نظروں کے سامنے سے گزرے گا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی؟
واللہ میں اپنے شہداء کی یہ بے توقیری دیکھ کر لرز اٹھتا ہوں اور دل سے یہ کسک سی اٹھتی ہے کہ یہ قوم دھماکوں اور حملوں ہی کی مستحق ہے مگر پھر دل میں خیال آجاتا ہے کہ یہ وطن تو اپنا ہے اس میں رہنے والے تو اپنے ہیں کیا ہو جو زبان دشمن کی بولتے ہیں، کیا ہوا جو شہداء کے مقدس لہو کی توہین کرتے ہیں، کیا ہوا جو اہل و عیال سے دور دفاع وطن کے مورچے پر ڈٹے سپاہی کا مورال اپ کرنے کی بجائے اس کی کردار کشی کرکے اس کا مورال ڈاؤن تو کرتے ہیں مگر ہیں تو اپنے نا اور پھر ان وردی والوں کی زندگیوں اور کردار پر بھی مجھے رشک آتا ہے ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں کہ ہر درد دل پر سہے جاتے ہیں، ہر الزام پی جاتے ہیں ، ہر گالی ہنس کر برداشت کرجاتے ہیں پلٹ کر جواب نہیں دیتے مگر جب بات دھرتی ماں کی آتی ہے تو سینہ سپر ہوجاتے ہیں دشمن کا پیچھا اس کی کوکھ تک کرتے ہیں اور اس کو جالیتے ہیں پھر ان وردی والوں میں سے کچھ اللہ سے کیا ہوا وعدہ شہادت پورا کرجاتے ہیں اور کچھ پھر سے منتظر کسی نئے معرکے کے کسی نئی کاروائی کے مگر عزم و حوصلہ ذرا برابر بھی نہیں بدلہ شاید انہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا کہ
خون دل دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

خیرات پر گزارہ کرنے سے 19بلین تک کا سفر

وہ یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔ خاندان عسرت میں زندگی گزار رہا تھا، گھر میں بجلی تھی نہ گیس اور نہ ہی پانی تھا۔ گرمیاں خیریت سے گزر جاتی تھیں لیکن یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے۔ اس غربت میں 1992ء میں یوکرائن میں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم شروع ہو گیا۔ والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما، اٹیچی کیس میں بیٹے کی کتابیں بھریں اور یہ دونوں امریکا آ گئے۔ کیلیفورنیا ان کا نیا دیس تھا۔ امریکا میں ان کے پاس مکان تھا نہ روزگار  اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان۔ یہ دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر خیرات کے سہارے چل رہے تھے۔ امریکا میں ’’فوڈ سٹمپ‘‘ کے نام سے ایک فلاحی سلسلہ چل رہا ہے۔ حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے فوڈ سٹمپس دیتی ہے۔ یہ سٹمپس امریکی خیرات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ یہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔
جین کوم کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا،  وہ پڑھنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی مہنگی ہونے لگی‘ فوڈ سٹمپس میں گزارہ مشکل ہو گیا‘ جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی‘ خوش قسمتی سے اسے ایک گروسری اسٹور میں سویپر کی ملازمت مل گئی‘ اسٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم اور دروازوں کھڑکیوں سے لے کر سڑک تک صفائی اس کی ذمے داری تھی‘ وہ برسوں یہ ذمے داری نبھاتا رہا‘ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا‘ یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی میں لے گیا‘ وہ 1997ء میں ’’یاہو‘‘ میں بھرتی ہوا اور اس نے نو سال تک سر نیچے کر کے یاہو میں گزار دیئے۔
2004ء میں فیس بک آئی‘ یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو تی چلی گئی‘ یہ 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی‘ جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا‘ وہ یہ نوکری حاصل نہ کر سکا‘ وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا‘ وہ آئی فون خریدنا چاہتا تھا لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے تھے‘ اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے اور نیا آئی فون خرید لیا‘ یہ آئی فون آگے چل کر اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے سوچا‘ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو‘ جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے‘ تصاویر بھی بھجوائی جا سکیں‘ ڈاکومنٹس بھی روانہ کیے جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے‘ یہ ایک انوکھا آئیڈیا تھا‘ اس نے یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا‘ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر جت گئے‘ یہ کام کرتے رہے‘ کام کرتے رہے یہاں تک کہ یہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں کراس کر گئی‘ یہ ایپ ٹیلی کمیونیکیشن میں انقلاب تھی‘ اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
یہ ایپلی کیشن واٹس ایپ کہلاتی ہے‘ دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں‘ یہ ایپ دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ ہے‘ آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی آپ کسی موبائل کمپنی کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے‘ آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کے لیے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
فروری 2014ء میں فیس بک بھی ’’واٹس ایپ‘‘ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی‘ فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے اس ہنسی کے دوران ’’فیس بک‘‘ کو ہاں کر دی‘ 19 بلین ڈالر میں سودا ہو گیا‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22 ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی۔
جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی’’میں فوڈ سٹمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر دستخط کروں گا‘‘ فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی‘ یہ لوگ یہ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ڈٹ گیا یہاں تک کہ فیس بک اس کی ضد کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی‘ ایک تاریخ طے ہوئی‘ فیس بک کے لوگ فلاحی سینٹر پہنچے‘ وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا‘ وہ کیوں نہ روتا‘ یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے‘ ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی‘ وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی‘ طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی’’تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے‘ تم کام کیوں نہیں کرتے‘‘ یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی‘ ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے‘ وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے 19 بلین ڈالر کی ڈیل پر ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کیے‘ چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا‘ فوڈ سٹمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی‘ جین نے 19بلین ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا ’’آئی گاٹ اے جاب‘‘ اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔
یہ ایک غریب امریکی کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے، یہ داستان ثابت کرتی ہے آپ اگر ڈٹے رہیں، محنت کرتے رہیں اور ہمت قائم رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کامیابی کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔

میں اور میرے استاد محترم

عمران خان کے سیاست میں آنے سے پہلے مجھے نہیں پتہ تھا کہ 
سیاست کیا ہے?
کرپشن کیا ہے?
دھاندلی کیا ہے?
میرے سیاسی حقوق کیا ہیں ?
میرے فرائض کیا ہیں?
ٹیکس کسے کہتے ہیں?
ہم ٹیکس کیوں دیتے ہیں?
کتنا ٹیکس دیتے ہیں?
نیب کیا ہے?
ایف بی آر کیا ہے?
ایف آئی اے کیا ہے?
ان کے فرائض کیا ہیں?
ووٹ کیا ہے?
ووٹ کی اہمیت کیا ہے?
حکومت کیا ہے ? کیسے بنتی ہے?
ہم حکومت کو کیا دیتے ہیں ? بدلے میں حکومت ہمیں کیا دیتی ہے?
الیکشن کمیشن کیا ہے?
سپریم کورٹ کیا ہے?
ان کا دائرہ کار کیا ہے ?
فارم 14 کیا ہے ?
فارم 15 کیا ہے?
میں ہر بات سے بے خبر تھا حکمران ہماری اس بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے
میرے ملک پر دو خاندانوں کا قبضہ تھا
کہ اچانک خدا تعالیٰ نے ایک مردِ مجاہد کو ہماری مدد کے لیے بھیجا جس کا نام #عمران_خان ہے اس نے ہمیں ہمارے حقوق کے لیے کھڑا ہونا سکھایا
اور ایک استاد کی طرح وہ کچھ سکھایا جس سے ہم صدیوں سے لاعلم تھے
میں اس مردِ مجاہد سر_عمران_خان کا بے حد مشکور جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ آج میں عام سا انسان کسی ایم_این_ اے
ایم پی اے
اور یہاں تک کہ وزیراعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہوں
#شکریہ_سر_عمران_خان

نواز شریف کو کیوں نکالا زرا غور سے پڑھ لو


یہ تمام تفصیل گوگل، لائیکوز، یاہو، وکی لیکس اور وسل بلوئر پر تصدیق کی گئیں ھیں اور جناب مشتاق احمد جو فرانسیسی نژاد ھیں نے پاکستانیوں کے لیے محنت کر کے مرتب کی ھیں۔رپورٹ درج زیل ھے۔
پاکستانیو۔۔ ذرا دیکھ لو۔ آپ کتنے مالدار ہو۔ ذرا دو منٹ لگا کر اپنی دولت کا حساب کر لو۔اس کو دیکھنے کے بعد بھی اگر میری طرح کا ایک عام پاکستانی نواز شریف یا اسکے خاندان سے منسلک کسی بھی فرد کی حمایت کرتا ھے۔ تو وہ اس ملک میں رہنے والے غریبوں کا دشمن نمبر 1 ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*لاہور (ویب ڈیسک)
*پاکستان میں ۔۔*
*نواز شریف لاہور میں جس گھر میں رہائش پزیر ہیں اس کو رائیوننڈ محل کہا جاتا ہے ۔ اسکا احاطہ 25000 ہزار کنال پر محیط ہے ۔ اسکی مارکیٹ ویلیو اربوں روپے میں بنتی ہے۔*
*مری میں ایک عالی شان محل نما گھر۔*
*چھانگا گلی ایبٹ آباد میں زمین اور ایک مکان*
*مال روڈ مری پر ایک شاندار قیمتی بنگلہ*
*شیخوپورہ میں 88 کنال کی ایک زمین*
*لاہور اپر مال میں ایک مکان*
*1700 کنال کی مختلف جائدادیں*
*ان تمام گھروں کا سالانہ بجٹ 27 کروڑ روپے ہے.ان گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور آفیسرز کی کل تعداد 1766 ہے جن کا ماہانہ خرچ 6 کروڑ روپے ہے۔ بحوالہ سی این بی سی*
*صرف نواز شریف کے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کی قیمت 4.6 ملین ڈالر ہے 
*ان کے علاوہ نواز شریف کی سعودی عرب، دبئی، سپین اور استنبول میں بھی رہائش گاہیں ہیں۔*
*نواز شریف کا کاروبار پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ جو زیادہ تر رئیل اسٹیٹ، سٹیل، شوگرملز ، پیپر ملز اور فارمنگ پر مشتمل ہے۔*
*پاکستان میں نواز شریف اتفاق گروپ اور شریف گروپ نامی دو دیو ہیکل گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں ۔ جنکی ذیلی کمپنیوں میں کم از کم 11 شوگر ملز اور 15 انڈسٹریل اسٹیٹس شامل ہیں ۔ ان کاروباری اداروں کے ماتحت کام کرنے والی کچھ کمپنیوں کے نام یہ ہیں ۔ حوالہ سی این بی سی*
*رمضان شوگر ملز غالباً پاکستان کی سب سے بڑی شوگر مل ہے۔*
*رمضان انرجی لمیٹڈ*
*شریف ایگری فارمز*
*شریف پولٹری فارمز*
*شریف ڈیری فارمز*
*شریف فیڈ ملز*
*رمضان شوگر کین ڈیویلپمنٹ فارم*
*مہران رمضان ٹیکسٹائلز*
*رمضان ٹرانسپورٹ*
*رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز*
*محمد بخش ٹیکسٹائل ملز*
*حمزہ سپننگ ملز*
*چودھری شوگر ملز*
*اتفاق فاونڈری پرائویٹ لمٹڈ*
*حدیبیہ انجنیرنگز*
*خالد سراج انڈسٹریز*
*علی ہارون ٹیکسٹائل ملز*
*حنیف سراج ٹیکسٹائل ملز*
*فاروق برکت پرائویٹ لمیٹد*
*عبدالعزیز ٹیکسٹائل ملز*
*برکت ٹیکسٹائل ملز*
*صندل بار ٹیکسٹائل ملز*
*حسیب وقاص رائس ملز*
*سردار بورڈ اینڈ پیپر ملز*
*ماڈل ٹریڈنگ ھاوس پرائویٹ لمیٹڈ*
*حسیب وقاص گروپ*
*حسیب وقاص شوگر ملز*
*حسیب وقاص انجنیرنگ*
*حسیب وقاص فارمز لمٹڈ*
*حسیب وقاس رائس ملز*
*حمظی بورڈملز*
*اتفاق برادرزپرائویٹ لمیٹڈ*
*الیاس انٹرپرائسز*
*حدیبیہ پیپر ملز*
*اتفاق شوگر ملز*
*برادرز سٹیل ملز*
*برادر ٹیکسٹائل ملز*
*اتفاق ٹیکسٹائل یونٹس*
*خالد سراج ٹیکسٹائل ملز*
*یو اے ای میں ایک سٹیل مل*
*سعودی عرب اور جدہ کی سٹیل ملز سے آپ واقف ہیں۔ دبئی میں وہ اپنے ہی بیٹے کی کمپنی میں ملازم ہیں۔*
*انکی ایک شوگر مل کینیا میں ہے۔*
*نیوزی لینڈ کی سرکاری سٹیل کمپنی کے 49 فیصد شیرز نواز شریف کے نام  ہیں۔*
*کچھ عرصہ پہلے مشہور پاکستانی ٹی وی اینکر مبشر لقمان نے اپنے ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ محمد منشاء کی ملیکت کئی کمپنیاں دراصل نواز شریف کی ہیں اور محمد منشاء انکے فرنٹ مین ہیں۔ یہ کمپنیاں نجکاری کے ذریعے خریدی گئیں۔ ان میں پاکستان میں تیل سے بجلی بنانے والی آئی پی پیز جن کو نواز شریف نے آتے ہی 400 ارب روپے یا 4000 ملین ڈالر ادا کیے تھے۔*
*ایم سی بی بینک*
*ملت ٹریکٹرز*
*ڈی جی خان سمینٹ نمایاں ہیں-........................
*لندن پارک لین کے 4 فلیٹس جن کی ملکیت سے 25 سال تک انکار کرتے رہے اور آج اقرار کر رہے ہیں۔*
*ان کے علاوہ لندن میں الفورڈ میں واقع 33 اور 25 منزلہ پوائنیر پوائنٹ کے نام سے دو ٹاورز جنکی مالیت کئی سو ملین پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔*
*ہائیڈ پارک لندن میں دنیا کے مہنگے ترین فلیٹس میں سے دو فلیٹ جنکی مجموعی مالیت 150 ملین پاؤنڈ کے قریب ہے۔
*لندن کے مشرقی علاقے میں 340 مختلف پراپرٹیز
*تین فلیٹس 17 ایون فیلڈ ہاؤس*
*پارک لین جسکی مالیت 12 ملین پاؤنڈ ہے*
*فلیٹ نمبر 8 بور ووڈ پلیس لندن ڈبلیو 2 مالیت 7 لاکھ پاؤنڈ
*فلیٹ نمبر 9 بور ووڈ پلیس لندن ڈبلیو 2 مالیت 9 لاکھ پاؤنڈ*
*10 ڈیوک مینش، ڈیوک سٹریٹ لندن ڈبلیو 1, مالیت 1.5 ملین پاؤنڈ*
*فلیٹ نمبر 12 اے، 118 پارک لین میفیر، لندن ایس ڈبلیو 1 مالیت 5 لاکھ پاؤنڈ*
*فلیٹ نمبر 2، 36 گرین سٹریٹ، لندن ڈبلیو 1 مالیت 8 لاکھ پاؤنڈ*
*11 گلوسٹر پلیس، لندن ڈبلیو ون، مالیت انمول*
*ان کے علاوہ عین بکنگھم پیلس کے قریب جائداد جسکی مالیت 4.5 ملین پاؤنڈ ہے۔*
*148 نیل گوین ہاؤس سلون ایونیو میں فلیگ شپ کمپنی کے سیکٹری مسٹر وقار احمد رہائش پزیر ہیں وہ بھی انہی کی ملکیت ہے۔*
*سنٹرل لندن کے آس پاس 80 ملین پاؤنڈ کی جائدادیں۔*
*کچھ عرصہ پہلے حسین نواز نے لندن رئیل اسٹیٹ میں ایک ہی وقت میں 1.2 ارب ڈالر یا 1200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اسکا چرچا پاکستانی میڈیا پر بھی ہوا تھا جو آپ کو باآسانی گوگل پر مل جائیگا۔*
جس نون لیگی نے بھی نوٹس بھیجنا ھے اس پتے پر بھیج دے

مس عائشہ اور طارق کی محبت کی لاجواب کہانی

مس عائشہ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ طارق ﺗﮭﺎ۔ طارق ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔
مس عائشہ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ طارق ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ طارق مس عائشہ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ طارق ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
مس عائشہ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺮ ﮈﺍﻧﭧ، ﻃﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭼﮍ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮩﻼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﭘﻮﺭﭨﯿﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ مس عائشہ ﻧﮯ طارق ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺮﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﮑﮫ ﻣﺎﺭﯾﮟ۔ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﻼ ﻟﯿﺎ۔ " مس عائشہ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺑﮭﯽ ﻧﻈﺮﺁﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ طارق ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻧﺎ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﻨﮕﮯ۔ " " ﻣﯿﮞ ﻤﻌﺬﺭﺕ ﺧﻮﺍﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ طارق ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﻤﺎ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔ " مس عائشہ ﻧﻔﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﺁﺋﯿﮟ۔
ﮨﯿﮉ ﻣﺴﭩﺮﯾﺲ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ مس عائشہ ﮐﯽ ﮈﯾﺴﮏ ﭘﺮ طارق ﮐﯽ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﺭﮐﮭﻮﺍ ﺩﯾﮟ۔ اگلے دن مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﯼ۔ ﺍﻟﭧ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ طارق ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭨﺲ ﮨﯿﮟ۔ " ﭘﭽﮭﻠﯽ ﮐﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮩﯽ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺋﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ۔ " ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻼﺱ 3 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ۔ " طارق ﺟﯿﺴﺎ ﺫﮨﯿﻦ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ " " ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﺑﭽﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﭽﺮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﻟﮕﺎﺅ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ""
ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻤﺴﭩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ طارق ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﮯ۔ " مس عائشہ ﻧﮯ ﻏﯿﺮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻼﺱ 4 ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮭﻮﻟﯽ۔ " طارق ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ " " طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﮐﺎ ﮐﯿﻨﺴﺮ ﺗﺸﺨﯿﺺ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﮯﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﮩﺮﺍ ﺍﺛﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ " "
طارق ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻣﺮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ طارق ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﻣﻖ ﺑﮭﯽ ۔ ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ " مس عائشہ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﺎﻧﭙﺘﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺮﻭﮔﺮﯾﺲ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺑﻨﺪ ﮐﯽ۔ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ مس عائشہ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﺴﺘﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﺟﻤﻠﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺗﺮﺗﯿﺐ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ طارق ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺴﺐِ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ طارق ﭘﺮ ﺩﺍﻏﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ طارق ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ مس عائشہ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮉﺍﻧﭧ ﭘﮭﭩﮑﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﺎﺗﮭﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮍﯼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻨﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺧﻼﻑِ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺁﺝ ﺑﻞ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ، ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ طارق ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻠﻮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺩﮨﺮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﺎ۔
طارق ﺗﯿﻦ ﭼﺎﺭ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮ ﺑﻮﻝ ﮨﯽ ﭘﮍﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯽ مس عائشہ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭘﺮﺟﻮﺷﺎﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻟﯿﺎﮞ ﺑﺠﺎﺋﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺠﻮﺍﺋﯿﮟ۔ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎمس عائشہ ﮨﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﺘﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺏ ﭘﺬﯾﺮﺍﺋﯽ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﭼﮭﯽ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﭘﺮﺍﻧﺎ طارق ﺳﮑﻮﺕ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ مس عائشہ ﮐﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ۔ ﻭﮦ ﺭﻭﺯ ﺑﻼ ﻧﻘﺺ ﺟﻮﺍﺑﺎﺕ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﺘﮯ ﻧﺌﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺳﻨﻮﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺻﺎف ہوتے ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﺎﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ طارق ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﭘﻮﺯﯾﺸﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ۔ ﺍﻟﻮﺩﺍﻋﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﭽﮯ مس عائشہ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﺤﻔﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ۔ ﺍﻥ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺪ ﺳﻠﯿﻘﮧ ﻃﺮﺯ ﭘﺮ ﭘﯿﮏ ﮨﻮﺍ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﮮ۔ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﻟﮕﯽ ﮑﮧ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ طارق ﻻﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﺎﮌ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻧﮑﺎﻻ۔ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻟﯿﮉﯾﺰ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺁﺩﮬﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺷﺪﮦ ﺷﯿﺸﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻣﻮﺗﯽ ﺟﮭﮍ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ مس عائشہ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﭼﮭﮍﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ۔ﺧﻮﺩ طارق ﺑﮭﯽ۔ ﺁﺧﺮ طارق ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭨﮏ ﺍﭨﮏ ﮐﺮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺁﺝ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ "
ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺩﻥ ﮨﻔﺘﻮﮞ، ﮨﻔﺘﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﮩﺎﮞ ﺩﯾﺮ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ؟ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﺧﺘﺘﺎﻡ ﭘﺮ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻂ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻮﺻﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﺌﮯ ﭨﯿﭽﺮﺯ ﺳﮯ ﻣﻼ۔ ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ " ﭘﮭﺮ طارق ﮐﺎ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺨﺘﻢ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﻮﻁ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﻣﺰﯾﺪ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮎ ﻣﯿﮟ طارق ﮐﺎ ﺧﻂ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ:
" ﺍﺱ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ۔ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ - " فقط ڈاکٹر طارق
ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ جہاز ﮐﺎ ﺭﯾﮍﻥ ﭨﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﻟﻔﺎﻓﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ مس عائشہ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ وہ دوسرے شہر کے لئے ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﻋﯿﻦ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻭﮦ شادی کی جگہ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﻟﯿﭧ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﮈﺍﮐﮍ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ کہ وہاں موجود نکاح خواں ﺑﮭﯽ ﺍﮐﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ طارق تقریب کی ﺍﺩﺍﺋﯿﮕﯽ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﮔﯿﭧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭨﮑﭩﮑﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﺎ۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ﺍﻥ ﮐﺎ وہ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻭﮦ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺳﺎ ﮐﮍﺍ ﭘﮩﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﺳﭩﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﺎﺋﯿﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ " ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﻠﺪ ﺁﭖ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﺍﺅﻧﮕﺎ۔ ۔ ۔ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮨﯿﮟ - !
!!ﻋﺰﯾﺰ ﺩﻭﺳﺘﻮ ﺍﺱ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮ ﮐﮧ ﮨﯽ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺩﯾﮑﮭﯿﮯ، طارق ﺟﯿﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﻣﺮﺟﮭﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺗﻮﺟﮧ، ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﻧﺌﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﯽ ﻫﮯ