کے پی کے کا بلدیاتی نظام کتنا اچھا کتنا برا۔۔۔

دنیا میں اسمبلیوں میں بیٹھے اراکین کا کام قانون سازی کرنا ہوتا ہے لیکن اس مملکت خداداد میں ایم این یا ایم پی اے صرف اس لیے بننے کو ترجیح دی جاتی ہے کہ پیسہ آۓ گا پروٹوکول ملے گا گاڑی ملے میرے نزدیک پاکستان کا کوئی ایم پی اے ایم این میرے خیال میں ہرگز یہ سوچ کر اقتدار میں انے کی کوشش نہیں کرتا کہ اس کے ہاتھ اس ملک کے باسیوں کے لیے بہتر قانون سازی ہو سکے بلکہ یوں کہہ لیں کہ اکثر تو ایسے ایم این اے ایم پی اے بھی بن جاتے ہیں جن کو اپنا نام بھی شاید سیدھا لکھنا نہ اتا ہو۔۔۔ 2013 میں کے پی کے میں جب عمران خان کو حکومت ملی تو سب سے پہلے جس اچھے کام پر کام شروع کیا گیا وہ تھا ایک ازاد اور خود مختار بلدیاتی سسٹم جس کے زریعے اختیارات کی نہ صرف نچلی سطح پر منتقلی ہو بلکہ تمام ترقیاتی فنڈز لوکل نمائندوں کے زریعے لوگوں کی دہلیز پر پہنچاۓ جائیں تاکہ وہ اپنے مسائل کا کم وقت بہتر حل نکال سکیں۔ دوسری طرف اس کا مقصد یہ بھی تھا ایم این اے ایم پی اے کو بھی نالیوں اور پانی کے پائپوں سے باہر نکال کر انکی اصل جاب کی طرف لایا جاۓ۔ لیکن یہ کرپشن کا بے تاج سسٹم اس کو کیسے برداشت کرتا جس کی وجہ سے شاید صاف ستھرے لوگ سامنے ا جاتے کیونکہ جب پیسہ نہیں ہو گا فنڈ نہیں ملے گا تو لازمی طور پر دو نمبر لوگ سیاست سے اوٹ ہو جائیں گے۔ یہ ہی وہ وجہ تھی کہ جناب عمران خان صاحب کے اس خواب کو انکے اپنے وزیر اعلیٰ نے عمران خان کے اعلان کے باوجود ہوا میں اڑا دیا اور اس پر عمل درامد نہیں ہونے دیا کیونکہ تحریک انصاف میں بھی ایک بڑی تعداد انہی موقعہ پرست لوگوں کی ہے۔۔۔۔۔
دوسری طرف جب اس بلدیاتی سسٹم کے تحت انتخابات کرواۓ گئے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس ایلکشن میں حصہ لیا اور کم و بیش پینتالیس ہزار لوگ ایلکٹ ہو کر اس سسٹم کا حصہ بنے اور پہلی دفعہ لوگوں تک صیح معنوں میں اقتدار و منتقل ہو گیا لیکن اس بلدیاتی سسٹم کی رو کے مطابق اس کو استعمال میں نہیں لایا جا سکا جس کے راستے کی سب سے بڑی دیوار یہ ایم پی ایم اینے بن گئے۔ لیکن ان سب ناکامیوں کے باوجود تحریک انصاف اس ایلکشن کے نتیجے میں  نے زبردست قسم کا تنظیمی ڈھانچہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی اور اس وقت ایک گاوں سے لے کر صوبائی سطح تک ستر فی صد سے اوپر لوگ پاور میں ہیں اور اگر تحریک انصاف کی قیادت اس ڈھانچے کو ایلکشن میں باقی پارٹیز کی طرح استعمال کر سکے تو یہ جنرل ایلکشن میں کامیابی کے لیے اہم ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے۔۔۔۔ اب اتے ہیں اس ایلکشن کی وجہ سے اپوزیشن کی جماعتوں کو کیا ملا اس ایلکشن میں نون لیگ اور باقی یتیم قسم کی پارٹیوں کے لوگ یہاں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آۓ اور آۓ روز اس سسٹم کے تحت ملنے فنڈز کو اپنی کامیابی قرار دے کر سادہ لوح لوگوں کو گھیرنے کی کوشش میں رہتےہیں۔ اب میرے سوال ان سیاسی بونوں سے ہیں کہ کیا اپ کے دور حکومت میں کبھی اتنا فنڈ پوری یوسی کو ملا جتنا میری جماعت کے نافذ کردا بلدیاتی نظام سے ایک گاوں کو مل رہا ہے جو کے ابھی اپنی اصل رو کے مطابق چل بھی نہیں رہا؟ سوال نمبر دو یہ کہ کیا اگر جس طرح اپکے بلدیاتی اور صوبائی لوگ جو کہ اپوزیشن میں ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت نے انکو پھر بھی برابری کی سطح پر فنڈز دیے اور وہ اپنی گڈی چمکا رہے ہیں اور میرا سوال ان لوگوں سے بھی ہے چاہے اس میں میرا اپنا قریبی ہی کیوں نہ ہو کہ اپ لوگ جن تحصیل اور ضلع یا پھر ویلج کونسلز کے اپنی جماعت کے لوگوں کی کارکردگی پر خوش ہوتے ہیں اپکو اس بات کا عمل ہے کہ اگر تحریک انصاف کا یہ بلدیاتی سسٹم نہ ہوتا تو اپکے ان لوگوں کی کیا پوزیشن ہوتی؟ یقینا وہ پوزیشن ہوتی کہ پینتیس سالوں میں جو دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں ویسے ہی ابھی بھی بہائی جاتیں اور ہمارے لوگ اج بھی پائپوں کی جنگ لڑ رہے ہوتے۔۔۔۔ خدا کے لیے ان سیاسی مصخروں کے چنگل سے نکلیں اور اپنے انیوالی نسلوں کے بارے میں سوچیں اور سچے لوگوں کا ساتھ دیں۔ اور ایک بات پھر یاد کروا دوں جس پیسے پر یہ لوگ اپکو کھیلا رہے ہیں وہ دراصل تحریک انصاف کی گورنمٹ کی ان پالیسز کا نتیجہ ہے جنکا مقصد صرف اور صرف عوام کی ترقی ہے اپنی جیبیں بھرنا نہیں جس کی وجہ سے کل رو رو کر یہ کہنا پڑے کہ مجھے کیوں نکالا۔۔۔۔۔۔۔
تحریر محمد فراز۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment